بچوں سے زیادتی، ریپ کے خاتمے کے لئے سیکس ایجوکشن کا محکمہ بنایا جائے

بچوں سے زیادتی، ریپ کے خاتمے کے لئے سیکس ایجوکشن کا محکمہ بنایا جائے
پاکستان میں گذشتہ سال اور رواں سال میں بچوں سے جنسی زیادتی کے پانچ ہزار سے زائد کیس سامنے آئے ہیں جبکہ بے شمار کیس ایسے بھی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پاکستان میں روزانہ 15 سے 20 بچے ریپ ہوتے ہیں۔ ان میں سے دس بچوں کو ان کے گھر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، خاص کر دس سے بارہ، تیرہ سال کی بچیاں زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ پانچ فیصد بچے نجی سکول، ٹیوشن ہومز، فیکٹری، ورکشاپ اور پارکوں میں جنسی تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ خواتین کے ریپ کے لئے اغوا، ریپ، جنسی ہراسانی کے کیسز کی تعداد بھی شرمناک حد تک زیادہ ہے۔

انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ عمران خان حکومت انتخابی نعروں اور وعدوں کے برعکس عام عوام کے مسائل کو بری طرح نظر انداز کر رہی ہے۔ گذشتہ پنجاب حکومت نے بچوں سے زیادتی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جنسی تشدد کے خلاف آگہی کے لئے ماہرین کی مشاورت سے ایک کتابچہ مرتب کیا تھا۔ کتابچہ سکول کے بچوں کو پڑھایا جانا تھا تا کہ بچے گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ اور دیگر جنسی امور سے واقف ہوں اور خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ مگر تبدیلی سرکار نے اس پر مزید کام کرنے کی بجائے داخل دفتر کر دیا ہے۔



عمران خان حکومت میں بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دینے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ گذشتہ حکومتوں میں ریاست کچھ نہ کچھ ذمہ داری ادا کر رہی تھی مگر اب ایسے لگتا ہے کہ ریاست کہیں ہوا میں معلق ہے یا حکمرانوں کا تعلق ملک وقوم سے بالکل نہیں اور کہیں باہر سے آ کر حکومت کر رہے ہیں۔ حقیقت بھی ہے کہ آفت تو غریبوں پر آتی ہے۔ زیادتی کا شکار ہونے والے بچے غربت سے بھی نیچے کی لکیر سے تعلق رکھتے ہیں۔

عمران حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی جامع حکمت عملی اور پروگرام سامنے نہیں آیا ہے بلکہ سابقہ حکومتوں کے پروگراموں کے یا تو نام اور طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا ہے یا پھر بند کر دیے گئے ہیں۔ کام کی رفتار بالکل بھی نہیں ہے۔

حکومت بچوں کے حوالے سے نیشنل پالیسی مرتب کرے، سکولوں، بچوں کے کھیلنے والے مقامات، کارٹون، گیمز، فلمیں، ڈرائینگ بکس، موبائل فون، کھلونوں اور پبلک مقامات پر جنسی تشدد اور زیادتی کے حوالے سے آگاہی دی جائے اور یہ کام مکمل سنجیدگی سے کیا جائے تاکہ بچوں کو اس غیرانسانی رویے سے محفوظ رکھا جائے۔

پاکستان کے معاشرے میں منتشر خیالی ہے اور درست خیالی کا شدید فقدان ہے۔ جس کی ذمہ دار ریاست ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریاست اور حکومت کا سماج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سماج ریاست، حکمران طبقات، اشرافیہ اور کئی طبقات میں تقسیم ہے۔ خاص کر حکومت اور ریاست کا سماج کے ساتھ تعلق گھمبیر مسئلہ ہے۔ حکومت اور عوام میں بڑی خلیج ہے۔ عوام ہی کے منتخب نمائندوں کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ الیکشن کے دنوں میں لوگ اپنے نمائندوں کی شکلیں دیکھ پاتے ہیں۔ منتخب ہو کر کوئی ایم پی اے اور ایم این اے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ عمران خان حکومت کو سماج کی نچلی پرتوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

بالغ افراد کے لئے بھی جنسی تعلیم کو ماہرین کی مشاورت سے ترتیب دیا جائے۔ یہ کام درس گاہوں کا ہے کہ معاشرے کی بہتر تشکیل کے لئے اعلیٰ تعلیم و تربیت کی جائے تاکہ ایک متوازن اور انسانی اخلاقیات کی بنیاد پر سماج پروان چڑھ سکے۔ آنکھیں بند کرنے سے آفت ٹل نہیں جاتی۔ بچوں سے زیادتی سے لے کر خواتین کے ریپ کے کیس تشویش ناک حد تک روزانہ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ انتہائی خطرناک پہلو یہ ہے کہ مقدس رشتے بھی اس آفت کی زد میں ہیں۔ حکومت اس ایشو پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور تاخیر کیے بغیر جامع پالیسی مرتب کرتے ہوئے جس طرح گذشتہ حکومتوں نے خصوصی تعلیم کا محکمہ بنایا ہے، حکومت جنسی تعلیم کا بھی شعبہ بنائے اور جنسی تعلیم کو فروغ دے کر سماج سے اس لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔