موبائل فون خریدنے والا پاکستانی صارف جو ایف بی آر اور پی ٹی اے کے درمیان فٹبال بن گیا

موبائل فون خریدنے والا پاکستانی صارف جو ایف بی آر اور پی ٹی اے کے درمیان فٹبال بن گیا
ایف بی آر اور پی ٹی اے نے امریکا سے واپسی پر اپنے ساتھ موبائل لانے والے شہری کی ناک کی لکیریں نکلوا دیں۔ اس نے ذمہ دار شہری ہونے کا ثوبت دیتے ہوئے ٹیکس ادا کرنے کی کوشش کی لیکن دونوں اداروں نے اسے فٹبال کی طرح گھمایا اور وقت گزرنے کے بعد ڈبل ٹیکس ڈال دیا۔

نیا دور سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شہری کا کہنا تھا کہ میں 24 نومبر 2021ء کو امریکا سے پاکستان پہنچا تھا۔ میں وہاں سے اپنے ساتھ ایک آئی فون لایا تھا۔ میرے ذہن میں تھا کہ میرے پاس اس ڈیوائس کو پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن سے رجسٹرڈ کرانے کیلئے ساٹھ دن کا وقت ہے اور بطور ایک انٹرنیشنل ٹریولر مجھ پر لگ بھگ 36 ہزار روپے ٹیکس لاگو ہوگا۔

اس نے بتایا کہ میں نے 22 دسمبر کو پی ٹی اے کے پورٹل پر جا کر اپنا اکائوںٹ بنایا اور تمام تفصیلات لکھتے ہوئے انھیں بتایا کہ میری ڈیوائس کو برائے مہربانی رجسٹرڈ کر دیا جائے۔ لیکن جب اسے send  کرنے کی کوشش کی تو پورٹل نے Error  دینا شروع کر دیا۔ میں نے اس مسئلے سے آگاہ کرنے کیلئے پی ٹی اے ہیلپ لائن پر کال کی اور انھیں تمام تر صورتحال سے آگاہ کیا۔

شہری کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے ہیلپ لائن پر فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ یہ معاملہ ایف بی آر کے پاس لے کر جائیں تو میں نے ایف بی آر کال کردی اور انھیں بھی اپنے مسئلے سے آگاہ کیا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو حکام نے مجھے کہا کہ آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا آپ فلاں فلاں ہدایات پر عمل کریں، میں نے پھر ویسا ہی کیا لیکن دوسری جانب سے ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ تنگ آکر میں نے 13 جنوری کو دوبارہ ایف بی آر کی ہیلپ لائن پر کال کی تو مجھے بتایا گیا کہ پی ٹی اے کے پورٹل پر اپنی تفصیلات ڈالنے کے بعد جو Error آتا ہے اس کا سکرین شارٹ لیں اور ہمیں ای میل کر دیں۔ میں نے دوبارہ ان کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے تمام تفصیلات انھیں بذریعہ ای میل بھیج دیں۔ اس کے بعد مجھے اس کا جواب دیتے ہوئے بتایا گیا کہ آپ کی درخواست درج کر لی گئی ہے، آپ کا مسئلہ اگلے 24 گھنٹوں میں حل کر دیا جائے گا۔ اسی دوران ایک اور میل آئی کہ آپ کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہے لیکن چیک کیا تو پتا چلا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں فون اور ای میلز کرتا رہا لیکن دونوں اداروں کی جانب سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ 21 جنوری کو میں نے پی ٹی اے کی ایس ایم ایس سروس کیساتھ رجسٹرڈ ہو کر اس پلیٹ فارم سے بھی اپنی تمام تفصیلات دیں۔ تو مجھے میرا چالان نمبر دیتے ہوئے 72 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنے کا کہا گیا۔

شہری نے بتایا کہ میں نے پی ٹی آئی کو فون کرتے ہوئے تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ جناب میں تو دو ماہ سے رجسٹرڈ ہونے کی کوشش کر رہا ہوں اور آپ سمیت ایف بی آر سے بھی رابطے میں ہوں لیکن آپ کا سسٹم ہی کام نہیں کر رہا تھا لیکن اب اچانک 21 جنوری کو مجھے رجسٹرڈ کرتے ہوئے نیا ٹیکس لگا دیا گیا ہے تو اس پر پی ٹی اے حکام نے کہا کہ ہمارا اس سارے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں، آپ ایف بی آر سے بات کریں۔

انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر حکام سے بات کی تو انہوں نے مجھے لاجواب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پورٹل پی ٹی اے کا استعمال کر رہے ہیں، رجسٹرڈ ان کیساتھ ہونا ہے تو ہمارا آپ کے معاملے سے کیا تعلق ہے۔

شہری کا کہنا تھا کہ اس طرح دونوں قومی اداروں نے ایک دوسرے پر معاملہ ڈالتے ہوئے ناصرف میرا وقت ضائع کیا بلکہ معاشی طور پر بھی نقصان پہنچایا۔ میں ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے مقررہ وقت کے اندر اپنا واجب الادا ٹیکس دینا چاہتا تھا لیکن جان بوجھ کر اب مجھے نیا ٹیکس ادا کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ ٹیکس میں اضافے کے حوالے سے جاری سرکلر میں دو قسم کے لوگوں کے لیے الگ الگ ٹیکس رکھے گئے ہیں۔ اس میں ایک وہ ہیں جو بیرون ملک سے اپنے ساتھ موبائل فون لے کر آتے ہیں۔ وہ اپنے پاسپورٹ پر دو مہینوں تک موبائل فون کو پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کے ساتھ رجسٹر کر سکتے ہیں جبکہ دوسری رجسٹریشن قومی شناختی کارڈ کے اوپر ہے۔

پاسپورٹ پر موبائل فون رجسٹر کرنے کا ٹیکس شناختی کارڈ پر رجسٹرڈ کرنے سے قدرے کم ہے۔ ایف بی آر کے موبائل فون ڈیلرز کو جاری سرکلر کے مطابق پاسپورٹ پر 30 ڈالرز تک قیمت والے موبائل فون پر 430 روپے (شناختی کارڈ پر 550 روپے) جبکہ 30 سے 100 ڈالرز تک تین ہزار 200 روپے (شناختی کارڈ  پر 4323 روپے ) ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوگی۔

سرکل کے مطابق  100سے 200 ڈالرز تک  نو ہزار800  روپے (شناختی کارڈ پر 11561 روپے) 200  ڈالرز سے زائد قیمت والے موبائل فون پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے ساتھ خریدار کو سیلز ٹیکس بھی دینا ہوگا۔

200 سے 350 ڈالرز تک 12 ہزار 200 روپے (شناختی کارڈ پر 14661) ریگولیٹری ڈیوٹی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔

اس طرح 350 سے 500 ڈالرز تک17ہزار 800 روپے (شناختی کارڈ پر 23420 روپے) ریگولیٹری ڈیوٹی اور 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔

500 سے زائد قیمت پر17فیصد سیلز ٹیکس کے ساتھ 27 ہزار 600 روپے (شناختی کارڈ پر 37007 روپے) ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہوگی۔

دل جان سے جب پوچھا گیا کہ نئے ٹیکسز کے  بعد اب آئی فون موبائل پر ٹیکس کتنا ہوگا، تو ان کا کہنا تھا کہ آئی فون ایکس میکس اور اوپر کے تمام موبائل فون 500 ڈالرز سے زائد قیمتوں والے ہیں، تو اس پر اب پاسپورٹ پر تقریباً 63 ہزار اور شناختی کارڈ پر تقریباً 80 ہزار روپے ٹیکس بنتا ہے جو پہلے بالترتیب 36 ہزار اور 46 ہزار روپے تھا۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کے دسمبر 2021 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں 18 کروڑ سےزائد سبسکرابئر (جن کے نام سم رجسٹرڈ ہوں ) موجود ہیں جس میں سے 10 کروڑ سے زائد تھری اور فور جی استعمال کرتے ہیں۔

ایف بی آر کے مطابق موبائل فونز پر ٹیکس لگانے کے بعد ان کی سمگلنگ بہت حد تک کنٹرول ہوگئی ہے۔

ایف بی آر کی 2020 کے ایک رپورٹ کے مطابق جب سے موبائل رجسٹریشن کا سلسلہ شروع  ہوا ہے موبائل کی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2019 میں موبائل فونز کی کمرشل امپورٹ دو کروڑ 80 لاکھ سے زائد تھی جبکہ 2018 میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 70لاکھ سے زائد موبائل  درآمد کیے گئے جو 2019میں تقریباً 64 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

ایف بی آر کی اس رپورٹ کے مطابق موبائل فونز پر ٹیکس عائد کرنے کے بعد مقامی سطح پر موبائل مینوفیکچرنگ میں بھی اضافہ ہوا۔

ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں مقامی سطح پر پاکستان میں موبائل فونزکے50لاکھ سے زائد یونٹس بنائے گئے جو 2019 میں بڑھ کر ایک کروڑ سے زائد ہوگئے۔

رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ موبائل پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنا ہے کیونکہ مقامی سطح پر بننے والے موبائل سیٹ پر یہ ڈیوٹی عائد نہیں۔

ایف بی آر کے 2019 میں جاری اعداد شمار کے مطابق جولائی سے دسمبر 2019 تک سب سے زیادہ تقریباً 44 لاکھ وہ موبائل فون درآمد کیے گئے جن کی قیمت 30 ڈالرز سے کم تھی، جو تمام درآمد شدہ موبائل فونز کا 48 فیصد بنتا ہے۔

اسی طرح 30 ڈالرز سے ایک سو ڈالرز تک کی قیمت کے درمیان 37 لاکھ سے زائد، سو سے دو سو ڈالرز کے درمیان کی قیمت کے نو لاکھ تک، 350 ڈالرز سے 500 ڈالرز تک کے 2897 جبکہ 500 ڈالرز سے زائد قیمت کے 20 ہزار سے زائد یونٹس درآمد کیے گئے۔ استعمال شدہ موبائل فونز کے صارفین کہتے ہیں کہ ان فونز کی اصل قیمت سے زیادہ ان پر ٹیکس ہے۔