تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری جنگ پاکستان اور پاکستان کے سکیورٹی اداروں سے ہے۔ خیال رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کا یہ پہلا ٹی وی انٹرویو ہے۔ نور ولی محسود 2018 میں ملا فضل اللہ کے مرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بنا تھا۔
پاک افغان بارڈر کے قریب نامعلوم مقام پر موجود تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کی کامیابی پوری امت مسلمہ کی کامیابی ہے۔ ہمارے تعلقات بھائی چارے، دوستی اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہیں۔ نور ولی محسود نے مزید کہا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک مسلمان کی کامیابی دوسرے مسلمانوں کی کامیابی میں مدد دیتی ہے، افغان طالبان کی کامیابی کا ہمیں کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔ تاہم، ہم چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کا کنٹرول حاصل کر کے اسے آزاد کروائیں۔ خیال رہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان طالبان تیزی سے افغانستان پر قبضہ کر رہے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق افغان طالبان نے افغانستان کے 60 فیصد سے زائد حصے پر قبضہ جما لیا ہے۔ جب کہ افغانستان چھوڑنے والی امریکی فوج کا اسلحہ اور بکتر بند گاڑیاں بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی پر پاکستان میں اندرونی اور بیرونی سکیورٹی پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی جانب سے پارلیمنٹ کو بریفنگ دی گئی تھی۔ بریفنگ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے لئے افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے، پاکستان دونوں کو مختلف نگاہوں سے نہیں دیکھتا۔ تاہم، امریکی اور مغربی میڈیا کے اندر ایسے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کی حمایت کر رہا ہے گو کہ پاکستان نے مکمل طور پر اس الزام کی تردید کی ہے۔
ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی اعلیٰ سیاسی قیادت کی جانب سے طالبان کے لئے نرم رویے کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر طالبان کو سلجھے ہوئے انسان کہتے ہیں جب کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ یہ طالبان ذہین ہیں جب کہ وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ یہ نئے طالبان مہذب لوگ ہیں جو مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان اعلیٰ تین عہدیداروں کے بیانات سے مغرب کے خدشات کو مزید ہوا مل رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستانی سیاست میں گذشتہ دنوں ہلچل اس وقت مچ گئی جب سابق وزیر اعظم نواز شریف جو کہ لندن میں مقیم ہیں اور پچھلے قریب دو سال سے بین الاقوامی سیاست اور سفارتکاری سے تقریباً لاتعلق دکھائی دے رہے تھے، یکایک متحرک ہوئے جب انہوں نے افغانستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب سے ملاقات کی۔ اس ملاقات پر حکومتی وزرا کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے جن کا کہنا ہے کہ حمداللہ محب نے حال ہی میں پاکستان کے خلاف سخت الزامات عائد کرتے ہوئے اس پر طالبان کی فتوحات کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان طالبان کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور اس تنطیم کو محفوظ مقامات تک رسائی فراہم کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ایک برادر عرب ملک نے نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ افغان نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر سے ملاقات کریں۔ اسحاق ڈار نے دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے برادرانہ تاریخی تعلقات پر بات چیت ہوئی۔
ایسی صورتحال میں کہ جب ایک طرف پاکستانی حکام افغان طالبان کی تعریفیں کر رہے ہیں، پاکستانی طالبان سکیورٹی اداروں سے اپنی جنگ کے جاری رہنے کا اعلان کر رہے ہیں اور افغانستان کی مشکلات میں گھری حکومت پاکستان کی حکومت سے مایوس ہو کر اس کے مخالفین سے بات چیت کرنے پر مجبور ہے، خطے کی صورتحال یقیناً تیزی سے بدل رہی ہے۔ یہاں پاکستانی حکام کا مبہم بیانیہ پاکستان کے لئے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ مغربی دنیا، خاص کر امریکہ، اس وقت تیاری کیے بیٹھا ہے کہ افغانستان سے نکلتے ہی اپنی سبکی کا تمام تر ملبہ پاکستان پر ڈالے اور پاکستانی حکام طالبان کے لئے اچھے اچھے بیانات دے کر خود ایسی کسی بھی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے اپنی پوزیشن کو کمزور کرتے جا رہے ہیں۔ یہ اپنے لئے کنواں کھودنے کی پالیسی حکومت کے لئے مستقبل میں سفارتی اور عالمی سطح پر تو مشکل پیدا کرے گی ہی، اندرونی سکیورٹی کے محاذ پر بھی معاملات مزید بگڑنے کا احتمال ہے۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے۔ طالبان چاہے خود کو افغان کہیں یا پاکستانی، دراصل ان کا مقصد دنیا بھر میں ایک اسلامی حکومت کا قیام ہی ہے۔ ان کے نظریات میں کوئی فرق نہیں۔ نور ولی محسود کا واضح الفاظ میں کہنا کہ ان کا مقصد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شرعی نظام لاگو کرنا ہے، اس خدشے کو مزید تقویت دیتا ہے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے اور جب افغانستان میں ان کی حکومت قائم ہو چکی ہوگی تو یہ پاکستان کے لئے اس سے کہیں بڑا خطرہ ثابت ہوں گے جتنے ماضی میں ثابت ہو چکے ہیں۔
پاکستانی حکام کو فیصلہ لینا ہوگا۔ اور یہ فیصلہ فوری مفادات کو نہیں بلکہ وسیع تر قومی مفاد اور دور رس نتائج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔