مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر پر فلم بنانے سے پہلے سنیما انڈسٹری کو بحال کرنا ہوگا

مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر پر فلم بنانے سے پہلے سنیما انڈسٹری کو بحال کرنا ہوگا
وزیراعظم عمران خان نے اپنے دورہ ازبکستان کے دوران ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور ازبکستان مل کر فلم سازی کریں گے اور مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر پر فلم بنائیں گے۔ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان دورہ ترکی کے دوران بھی اسی قسم کی خواہشات کا اظہار کر چکے ہیں کہ ترکی کے ساتھ مل کر فلم سازی یا ڈرامہ سازی کی جائے۔ جہاں تک میری معلومات ہیں ترکی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ایک کوشش ادکار ہمایوں سعید بھی کر چکے ہیں، ایک ڈرامہ سیریل بنانے کی کوشش بھی ہوئی تھی مگر کرونا وائرس کے باعث اس پروجیکٹ کو موخر کر دیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان کا تواتر کے ساتھ محتلف ملکوں کے ساتھ مل کر بار بار فلم سازی کرنے کا کہنا انکی پاکستان کی سنیما سکرین سے دلچسپی اور انکی نیک نیتی کو عیاں کرتا ہے مگر ضرورت اس امر کی ہے وزیراعظم عمران خان کو پاکستانی سنیما سکرین کی بحالی کے حوالے سے مکمل بریفنگ دی جائے۔ انکی باتوں سے واضح محسوس ہوتا ہے کہ وہ فلم سازی اور سنیما انڈسٹری کی زمینی حقائق سے بے خبر ہیں ،ظاہر ہے کہ ان کا تعلق کبھی اس شعبے سے نہیں رہا جبکہ بیورو کریسی کو پاکستان کی سنیما سکرین کی بحالی سے کوئی سروکار نہیں جبکہ انکی کابینہ میں شامل وزراء کو اس کا کوئی ادراک نہیں جبکہ پاکستان میں اس وقت کوئی وفاقی وزیر ثفاقت نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے مغل سلطنت کی بنیاد رکھنے والے ظہیر الدین بابر پر فلم بنانے کی جو بات کی ہے اسے فلمی زبان میں کاسٹیوم فلم کہا جاتا ہے جو کہ بڑے بحٹ کی ہوتی ہیں اسی فلم میکنگ کی ایک اپنی سائنس ہے ،کاش کوئی وزیراعظم عمران خان کو اس عہد کے بڑے بالی ووڈ فلم میکر سنجے لیلا بھنسالی کی فلمیں ،باجی راؤ مستانی اور رانی پدما وت دکھا دے تاکہ ان کو پتہ چلے کہ کاسٹیوم فلم بنانے والوں کو کس قدر سرمایہ اور سرکاری سرپرستی حاصل ہونی چاہیے۔

پاکستانی فلم کو بحال کرنے سے پہلے سنیما گھروں کی بحالی بہت ضروری ہے پچھلے دو سالوں سے وبا کے باعث ہمارے سنیما گھروں کو تالے لگے ہوئے ہیں قبل از وبا سے ہی سنیما انڈسٹری بحران کا شکار تھی 22 کروڑ کی آبادی والا ملک پاکستان جو کہ فلم سازی کی صنعت تھا، ماضی میں 1400 کے قریب سنیما گھر ہوتے تھے جو اب صرف 140 کے لگ بھگ رہ گئے ہیں ، ایک سال میں 53 یا 54 جمعے ہوتے ہیں ہر جمعے کو ایک نئی فلم ریلیز ہونی چاہیے جبکہ سالانہ 55 فلموں کو ریلیز ہونا چاہیئے، کسی زمانے میں اردو پنجابی اور پشتو کی سالانہ 80 سے 90 فلمیں ریلیز ہوتی تھیں جو اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کسی بھی اقدام سے قبل سنیما گھروں کی بحالی ضروری ہےجہاں سرمایہ کاری کرکے سینما گھروں کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے، اس وقت آپ کی فلموں کی سالانہ تعداد 20 سے 25 کے قریب ہے دوسالوں سے یہ تعداد صفر ہو کر رہ گئی ہے سب سے پہلے تو حکومت کو بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی ختم کرنی چاہیے تاکہ سال میں کم از کم 60 سے زائد فلمیں ریلیز ہوں ۔ ہر جمعہ کو تازہ فلم ریلیز ہو فلم بینوں کا اعتماد بحال ہواور ہر ویک اینڈ پر فلم دیکھنے کی روایت پھر زندہ ہو جب غیر ملکی فلمیں ریلیز ہونے سے سنیما گھروں میں رونق بحال ہو جائے گی اس سے ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا اور وہ فلمسازی کی طرف لوٹ آئیں گے۔ کوئی فلم ساز بڑے بجٹ کی کاسٹیوم فلم بنانے کا سوچے گا اس مد میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کو تعاون کرنا چاہیے، شروع کے دو سالوں میں ٹیکس ختم کئے جائیں مقررہ لوکیشن پر جہاں فلم کی عکسبندی ہونی تمام سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ ادکار اور ڈائریکٹر بے و خوف خطر کام کریں۔

میری وزیراعظم عمران خان سے بس ایک ہی گذارش ہے کہ آپ جس سوچ اور نیک نیتی کے پاکستانی فلموں کی بحالی چاہتے ہیں وہ تب تک ممکن نہیں جب تک سطور بالا میں لکھے گئے تمام اقدامات نہ کیے گیے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔