کچھ گڑھوں سے بچنے کی ضرورت ہے:
نئی اپوزیشن
توقع کے مطابق اہم سیاسی جماعتیں دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں۔ کچھ کو شکایت ہے کہ پریزائیڈنگ افسران کو نگرانی کی اجازت نہیں تھی، کچھ نے طریقِ کار کی شفافیت پر سوال اٹھایا۔ لیکن اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں، یہ ہمارے ہاں کا ایک معمول ہے۔
سیاسی جماعتیں اس صورتِ حال سے کیسے نمٹ سکتی ہیں؟
ایکشن پوائنٹ نمبر1: سیاسی جماعتیں کسی بیان، تقریر یا ایک آدھ پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے غصے کا اظہار کر سکتی ہیں، لیکن عملی طور پر بہتر ہوگا کہ مجموعی طور پر نتائج کو قبول کر لیں اور آگے کا سوچیں۔ سیاسی لڑائی کسی ایک مورچے تک محدود نہیں ہوتی۔ ٹی وی شوز، سوشل میڈیا یا پارلیمنٹ میں حکومت کو چیلنج کرنا شروع کر دیں۔ پاکستان کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اچھی اپوزیشن ثابت ہونا کوئی مشکل نہیں۔ اور ہر اچھی اپوزیشن حکومت پر چیک رکھتی ہے۔
ایکشن نمبر 2: الیکشن نتائج سے متاثرہ جماعتیں بیانات، تقریروں اور پریس کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ قانون راستہ اختیار کرتے ہوئے نتائج کو چیلنج کرسکتی ہیں۔ پٹیشن دائر کرنا اچھی بات ہے کیونکہ ہم سب قانونی طریقِ کار پر یقین رکھتے ہیں، چاہے ہمیں نظام کی غیرجانبداری پر شک ہی کیوں نہ ہو۔ ایک جانبداری برتنے والی عدالت، عدالت کے نہ ہونے سے بہتر ہے۔
ایکشن نمبر 3: وہ براہِ راست عوامی عدالت میں بھی جا سکتے ہیں۔ وہ نعرہ لگائیں کہ تمام نظام ہی دھاندلی زدہ اور بدعنوان ہے۔ عوام کو اپنا ہمنوا بناتے ہوئے وسیع پیمانے پر تحریک چلائیں، تمام نظام کے غیر آئینی ہونے کا جواز پیش کریں، اور اس میں احتجاجی مظاہروں اور استعفوں کا آپشن بھی کھلا رکھیں۔ روایتی اندا ز کی الزام تراشی ہر دور میں کام دیتی ہے۔
استعفوں کا آپشن، جو کسی طور اچھا نہیں، کو سب سے آخر میں استعمال کریں۔ اور اسے بدقسمتی کہہ لیں، یا خوش قسمتی کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اس آپشن کو شاید ہی کبھی استعمال کرتی ہیں۔ جب کوئی نئی جماعت اقتدار میں ہو، اور اُس نے وسیع پیمانے پر عوامی مہم چلا کر یہ تاثر گہرا کر دیا ہو کہ سابق حکومت بدعنوان تھی تو پھر استعفوں کا آپشن کام نہیں دیتا۔ کچھ 'لڑکیوں' کو سیاسی سکینڈلز میں ملوث کرنا سیاسی دانائی کی نفی کرتے ہوئے مؤقف کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کچھ چیزیں چند ماہ تک ہی عوام کی یادداشت کا حصہ رہتی ہیں، جیسا کہ احتساب کی تلوار یکطرفہ طور پر چل رہی ہے، وغیرہ۔
پھر یہ مؤقف اپنانے کا جواز بھی نکل آتا ہے کہ جب دوسروں نے یہ حربے اختیار کر کے آپ کو شکست دی تو آپ بھی ایسا کرنے میں آزاد ہیں۔ گویا میدان اور اس کے اصول نہیں بدلے، صرف حمایت یافتہ ٹیم تبدیل ہوئی ہے۔ اس تبدیلی کے سوا اور کوئی بہتری نہیں آنے جا رہی۔ درحقیقت اس کی وجہ سے ماحول کا بوجھل پن بڑھ رہا ہے۔ لیکن پھر مرض کی کوئی اور دوا موجود بھی نہیں۔ انتہائی نقصان کر کے فتح حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ انتقام کی خواہش اور انا کے گھوڑے سیاسی میدان میں کام نہیں دیتے ہیں۔
نئی حکومت
ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم جمہوری راہ پر کچھ اہم پیش رفت کر چکے ہیں۔ اسمبلیوں کی پانچ سال تک مدت پوری کرنے کی رسم سے ہم ناآشنا تھے، لیکن اب تسلسل کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پرانے لوگوں کو نئی چیزیں نہیں سکھائی جا سکتیں۔ تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
ایکشن نمبر1: سابق حکومت کی تمام پالیسیوں کو تبدیل کر دیں۔ اس کے لئے بدعنوانی، بدانتظامی، فنڈز کے اسراف اور نااہلی جیسی اصلاحات استعمال کریں۔
جب پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہوتا تو وہ لاحاصل اور بے کار ہو جاتی ہیں۔ کون کسی ایسے منصوبے پر کام کرنا چاہے گا جب اُسے پتہ ہوگا کہ بہت جلد یہ منصوبہ ختم ہونے والا ہے؟ اور منصوبہ سازوں کا بوریا بستر لپٹ جائے گا۔ لیکن مکمل تبدیلی سے فائدے سے زیادہ نقصان ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے لئے بہت زیادہ وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسی شروع کی ہوئی چیز کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہی بہتر ہوگا۔ نیز ایسا کرتے ہوئے آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں جب اگلی جماعت اقتدار میں آئے گی (جیسا کہ پاکستان میں 90 کی دہائی میں ہوتا تھا) تو ہم اُن کے لئے اچھی مثال چھوڑ کر جائیں۔ اس سے دونوں کا وقت اور توانائی بچ جائے گی۔
ایکشن نمبر 2: حال کی خرابیوں پر ماضی کو موردِ الزام ٹھہرانا
یقیناً سابق حکومتوں کی غلطیاں ہی ہوتی ہیں جو موجودہ حکومت کے سامنے آتی ہیں۔ چنانچہ ہر قائم ہونے والی حکومت سابق حکومت کو 'انسانی ڈھال' کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی ہے۔ جو بھی معاملہ خراب ہو، اس کا الزام سابق حکومت پر دھر کر خود بری الذمہ ہو جائیں۔
تصور کیا جا سکتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی ذمہ داری پی ٹی آئی حکومت سابق حکومت پر کافی دیر تک عائد کرتی رہے گی کیونکہ یہ قدر بحال کرنے میں بہت وقت لگ جائے گا۔ اس کے علاوہ انفراسٹرکچر، جیسا کہ اورنج لائن کو بھی وسائل کے بھاری زیاں کا ذریعہ قرار دیا جاتا رہے گا۔ اور پھر بجلی کا بحران بھی سراٹھائے گا، تاوقتیکہ 'قرض اتارو ملک سنوارو، پارٹ ٹو' کے تحت دیامیر بھاشا ڈیم تعمیر ہو جائے۔ یہاں ایک اور چیز قابلِ غور ہے۔ سابق حکومت اب گھر جا چکی۔ اُسے بہت دیر تک موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اب نئی حکومت کو ذمہ داری قبول کرنی پڑے گی۔
ایکشن نمبر 3: اپنے ہر مخالف کو دشمن قرار دینا
یہ انتخابات انتہائی رویے اختیار کرنے کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔ یہ تاثر ارزاں کیا گیا: ہم اچھے ہیں، اور ہمارے مخالفین پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں۔ اس طرزِ سیاست کی وجہ سے بہت سی کمیونٹیز نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا کیونکہ اُن پر کیچڑ اچھالا جا رہا تھا۔ لیکن انتخابات جیتنے کے بعد اب آپ کسی صوبے، کسی مذہبی گروپ، کسی جماعت کے لیڈر نہیں ہیں۔ اب آپ پورے ملک کے لیڈر ہیں۔ اب آپ کو اشتعال کی بجائے ذمہ داری کا احساس کرنا ہے۔ احتساب کے نام پر سیاسی حملے کرنے سے ممکن ہے آپ کو مختصر مدت کے لئے فائدہ ہو جائے، لیکن بہت جلد آپ بھی اسی حملے کی زد میں آ جائیں گے۔ ہم نے 90 کی دہائی میں یہی کچھ دیکھا تھا۔
اچھی سیاست تقسیم کرنے میں نہیں، ساتھ ملانے میں ہے، خاص طور پر جب آپ اقتدار میں ہوں۔
پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے والوں کو تنقید کا سامنا کرنا، اور اسے برداشت کرنے کا حوصلہ دکھانا پڑے گا۔ یہ جمہوریت ہے، اور جمہوریت تنقید کا حق دیتی ہے۔ ہاں تشدد سے گریز کرنا ہوگا۔ تنقید اور ذاتی حملوں میں فرق ہوتا ہے۔ سیاسی عمل میں تنقیدی حملوں کو برداشت کرنا اور آگے بڑھنا سیکھنا ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد پر تقسیم کی لکیر کھینچنا ملک اور نظام کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
اقتدار والوں اور اقتدار سے باہر والوں کے لئے آخری بات
اب آپ ایک جماعت یا حلقے کے لیڈر نہیں، اب تمام جمہوری عمل آپ کے کنٹرول میں ہے۔ آپ نے صرف اپنی ساکھ بہتر بنانے پر توجہ نہیں دینی، آپ نے اس ملک اور جمہوری عمل کی ساکھ بہتر بنانی ہے۔ آگے بڑھیں، ذمہ داری اٹھائیں، مل کر کام کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ دوسروں کو اپنے اندر تقسیم پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں، خاص طور پر ان کو جو اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہوں۔
بادشاہ جا چکا، نیا بادشاہ زندہ باد!