علی ظفر اور گل پانڑہ کا نیا پشتو گانا فوک موسیقی کو زندہ کرنے کی کوشش

علی ظفر اور گل پانڑہ کا نیا پشتو گانا فوک موسیقی کو زندہ کرنے کی کوشش
فوک موسیقی اور گلوکاروں کو دنیا میں پہچانا جاتا ہے اور اسے باقی موسیقی کی نسبت ایک الگ مقام حاصل ہے۔ آج کل کے گانوں کو اگر سنا جائے تو یہ ذہن پر بوجھ سا ڈال لیتے ہیں، یہ صرف ہم اس خطے کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی بات کر رہے ہیں جہاں بھی پرانی موسیقی کو لوگ آج بھی پسند کرتے ہیں جس میں ایک چاشنی ہوا کرتی تھی۔

اگر ساٹھ کی دہائی کی موسیقی کا دنیا بھر میں جائزہ لیں تو وہ آج بھی ہر دل عزیز ہے اور فارغ وقت میں لوگ انہی گانوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ 2000ء تک پوری دنیا میں جو موسیقی بنائی گئی یا جو میوزک پیش کیا گیا وہ آج بیس سال کے بعد بھی لوگ گنگناتے ہیں، خاص کر اگر انڈین گانوں کو دیکھا جائے تو آج بھی عاشق اور عشق میں ڈوبے لوگ انہی گانوں کو سن کر اپنا غم غلط کرتے ہیں۔

کیونکہ اب موسیقی میں ٹیکنالوجی مدغم ہو گئی ہے اور بیٹ سُر پر حاوی ہو گئے ہیں جو وقتی طور پر تو کانوں کو بھلا لگتا ہے مگر بعد میں اسکی ویلیو باقی نہیں رہتی۔

ٹیکنالوجی کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح ہر چیز میں تبدیلی آگئی اسی طرح موسیقی میں بھی پوری دنیا میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ شاعری کے خاتمے کے بعد صرف میوزک رہ گیا مگر جو فوک موسیقی اور لوک موسیقی ہے وہ ہر دور میں پسند کی جاتی ہے اس پر نت نئے تجربات کئے جاتے ہیں جو ایک اچھی کاوش ہے اور اس سے وہی موسیقی دوبارہ زندہ ہو رہی ہے۔

جب پشتو کا پہلا چینل ای وی ٹی خیبر شروع ہوا تو اُس کے ساتھ پشتو موسیقی میں بھی تبدیلی آگئی۔ زیک آفریدی نے ایک نئے انداز میں بی بی شیرینے فوک گانا گایا جس سے پشتو میوزک کو لوگ پھر سے پسند کرنے لگے۔

اسی طرح اردو گانے بھی ریمیکس کے طور پر پیش کئے جانے لگے، پھر میش اپ بننے لگے جو نوجوان نسل کو پسند آنے لگے۔ یہ تبدیلی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں دیکھی جانے لگی۔

پاکستان میں کوک سٹوڈیو، نیس کیفے سمیت دیگر اداروں نے پرانے گانوں کو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ پیش کرنا شروع کیا جس میں کچھ بہترین بنے تو بہت سو پر اعتراضات ہوئے کہ پرانے گانے اچھے تھے۔

تیر ہیر آوازونہ کے نام سے پشتو کے نامور گلوگاروں کے گائے ہوئے گانے ریڈیو پاکستان کے ایک صداکار اور آرٹسٹ نے گراموفون زمانے کے لگ بھگ تین ہزار گانے محفوظ کئے۔ اس میں 1902ء میں ریکارڈ کیا گیا پشتو زبان کا پہلا گانا بھی تھا جسے گوہر جان کلکتہ والی نے گایا تھا، اُس کے بول ہیں’’مورے زما یار نہ دے‘‘( ماں! میرا یار نہیں ہے)۔

دہلی میں ایک سِکھ سردار، سادو سنگھ نے 1904ء میں’’ بانگا فون‘‘ کے نام سے ایک کمپنی بنائی، جو زیادہ تر پشتو گانے ریکارڈ کرتی تھی۔ اُس کے گانے بھی تاریخ کا حصہ بن گئے تھے۔ اب پشتو موسیقی یوٹیوب کی نسبت بہت تبدیل ہو گئی ہے۔ ہر شخص نے یوٹیوب پر چینل شروع کرکے گانا شروع کر دیا ہے۔

بہت سے نئے نئے سنگر میدان میں آگئے ہیں بلکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بھی موسیقی اور گانے کو منتخب کیا ہے اور کافی نام کما رہے ہیں۔ اس یوم عالمی موسیقی کے دن علی ظفر اور گل پانڑہ کے گانے ''لاڑ شہ پیخور تا قمیص تور ما لا راوڑہ'' نے دوبارہ ایک نئی ڈی بیٹ شروع کر دی ہے جس نے ایک دن میں دس ملین کا وویوز کا ریکارڈ بنایا، یہ گانا ٹاپ ٹرینڈ میں آ چکا ہے۔

اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ ایک پنجابی نے پشتو کا گانا گا کر لہجہ بگاڑ دیا ہے۔ اس گانے کی کیوروگرافی، میوزک، کاسٹنگ، ایٖڈیٹنگ کمال کی ہے۔ غیر پختون لوگ بھی اس گانے کو پسند کر رہے ہیں جو ایک خوش آئند امر ہے۔

اس فوک گانے کے بارے میں لوگ متجسس ہیں کہ اسے کب لکھا گیا ہے، اس کی تاریخ کیا ہے.؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ فوک موسیقی جس زبان میں بھی ہو اسے زندہ کرنے کی کوشش کی جائے ، اس مقصد کیلئے گلوکاروں کو آگے آنا ہوگا۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔