کسی بھی جگہ رہنے والے لوگوں کی ایک یا کئی زبانیں ہوتی ہیں چاہے وہ شوہر ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ چند استشنائی صورتیں بھی دیکھی گئی ہیں۔ ہم نے ایک وڈیو دیکھی ہے جس میں ایک شیرنی دھاڑ رہی ہے اور شیر سر جگکاۓ کھڑا ہے۔ ہر زبان کے کوئی نہ کوئی اہلِ زبان بھی ہوتے ہوں گے۔ ہم نے ایک دوست سے کہ انشورنس ایجنٹ ہیں پوچھا کہ آپ آہلِ زبان ہو؟ بولے ہاں۔ انہوں نے ہمیں اپنی گز بھر لمبی زبان بھی نکال کر دکھا دی حتیٰ کہ ہم نے اُن کے اہلِ زبان ہونے کا اقرار کر لیا البتہ مستقبل میں اردو زبان کی لغات میں ممکنہ طور پر پیش آنے والی مشکلات کے پیشِ نظر اپنا سوال ہی واپس لے لیا۔ لہٰزا تکنیکی اعتبار سے نہ ہم نے اپنے دوست سے اہلِ زبان ہونے کے بارے میں سوال پوچھا نہ اُس نے گز بھر کی زبان دکھا کر اپنے اہلِ زبان ہونے کا دعویٰ کیا۔
مرزا کا خیال ہے کہ زبان ایک ہی پونی چاہیے، چاہے گز بھر کی ہو۔ جیسے بینکوں کی ہیلپ لائین کی ایک ہی زبان ہے کہ جب بھی کال کرو ایک ہی جواب پاؤ گے ‘اس وقت تمام لائینیں مصروف ہیں، آپ سے گُزارش ہے کہ کچھ دیر بعد دوبارہ کال کریں’۔ مرزا کے خیال میں ایک زبان رکھنے والا زبان دراز شخص چھوٹی چھوٹی کئی زبانیں رکھنے والے لوگوں سے بہت بہتر ہوتا ہے۔ پہلے ہمارے دیہاتی کلچر میں ایک زبان ہونے کو بڑا پن سمجھا جاتا تھا۔ یہ بات ہے بھی صحیح، مثلاً محبوب کو ہماری تاریخ و جغرافیے میں جو مقام حاصل ہے وہ محض اس کی ایک زبان کی وجہ سے ہے۔ جیسے بھی حالات ہوں محبوب کی بس ایک ہی بات آپ کو سننے کو ملے گی ‘کوئی دیکھ لے گا’۔ کبھی ایسی رپورٹ نہیں دیکھی گئی کہ محبوب نے کہا ہو کہ کوئی دیکھ لے گی۔ مگر اب دیہاتوں نے بھی شہری ترقی کی منزلیں طے کر لی ہیں لہٰذا لوگ حسب ضرورت، حسبِ توفیق اور حسبِ ذائقہ کئی زبانیں رکھتے ہیں۔ آپ نے ایسے لوگ تو بہت دیکھے ہوں گے جو بیک وقت کئی چیزوں کے ذائقے چکھ سکتے ہیں۔ البتہ مرزا ایک ہی چیز کے کئی ذائقے چکھنے اور بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ مرزا کی بیگم کے خیال میں اس کی وجہ مرزا کی چرب زبانی ہے۔
اگرچہ ہم زبان شناس واقع ہونے ہیں مگر ہمارے دوست ہمیں اہلِ زبان نہیں مانتے۔ کچھ کے خیال میں ہم ہر گز اہلِ زبان نہیں ہو سکتے مگر بدزبان ضرور ہیں۔ بد زبانی اور بے زبانی الگ الگ انسانی کیفیات ہیں اور ان کیفیات کا بے زبان جانوروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے ایک وکیل دوست ہمیں سمجھاتے رہتے ہیں کہ قانون کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔ ہم نے خود بھی کئی موقعوں پر قانون کی زبان سنی ہے پولیس والوں سے۔ ہمارے خیال میں اس زبان کی صفائی ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم نے دو پولیس والوں کو آپس میں بات کرتے بھی سنا ہے وہ کہہ رہی تھی ‘تم کون سی زبان سمجھتے ہو’ اتفاق سے دونوں میاں بیوی تھے۔
اگر آپ کا کوئی یار دوست ترکی ہو اور آپ کو ترکی زبان نہ آتی ہو تو شاعر نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لئے فارسی زبان میں ایک مصرعہ کہہ رکھا ہے جو ہر اس شخص کو یاد ہونا چاہئے جس کا کوئی یار دوست ترکی ہو۔ وہ مصرعہ یوں ہے “زبانِ یارِ مَن ترکی و من ترکی نمی دانم”۔ یہ سہولت ان لوگوں کے لئے نہیں جن کے ترکی یار دوست ایک سے ذیادہ ہیں۔ اگر آپ کا یار دوست ترکی نہیں ہے اور آپ کو اُس کی زبان نہیں آتی تو آپ یہ مسئلہ کسی اور زبان میں بھی بیان کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے لئے ابھی کوئی شعر وغیرہ نہیں لکھا گیا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ یار دوست بنانے سے پہلے اُس کی زبان سیکھ لی جاۓ۔ یا اُس کو اپنی زبان سکھا دی جاۓ البتہ یہ دوسری بات خطرے سے خالی نہیں ہے۔
کئی لوگ اتنے خوش مزاج ہوتے ہیں کہ انہیں کئی زبانیں آتی ہیں اور کئی ایسے کہ ایک زبان بھی نہیں آتی اور ان کو اپنی بات کہنے کے لئے بدزبانی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ہمیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ سیاستدانوں کی کوئی زبان نہیں ہوتی بلکہ ہمارے خیال میں اُن کی تو کئی زبانیں ہوتی ہیں۔
ہمارے خیال میں زبان دانی اور زبان شناسی ایک ہی مصروفیت کے دو نام ہیں مگر مرزا اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ زبان دانی مردوں کے لئے اور زبان شناسی عورتوں کے کام کی چیز ہے۔ جن لوگوں کی شادی نہیں ہوئی ہوتی وہ شیریں زباں ہوں یا تلخ زباں، اُن کو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر شادی شدہ لوگوں کی اور بات ہے۔ میاں بیوی دونوں میں سے ایک کو بہر صورت شیریں زباں ہونا چاہیے کیونکہ بیوی تو بہر طور تلخ زباں ہی ہوتی ہے۔ شوہر کو چاہئے کہ بیوی کی تلخ زبانی بلکہ کسی بھی بات کا بُرا نہ مناۓ کیونکہ اگر دونوں ہی ایک دوسرے کی بات کا بُرا منائیں گے تو زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی۔ مشہور ہے کہ تمام بیویوں کی ایک ہی زبان ہوتی ہے اور شوہر تو بےچارے ہوتے ہی بے زبان ہیں۔ ہم نے مرزا کی اہلیہ کو مرزا پر چِلًاتے دیکھا تو پوچھا کہ اس بے زبان نے کیا حرکت کر دی ہے، محترمہ نے چِلًاتے ہوۓ بتایا کہ زبان چلاتا ہے۔ ہمارے سمجھانے پر مرزا نے اپنی اہلیہ کو زبان دے رکھی ہے کہ آئندہ وہ زبان چلانے والی قبیح حرکت نہیں کرے گا۔ ہمارے ایک اور دوست محض اس لئے آئے دن کھاتے ہیں کہ وہ اپنی زبان سمبھال کر نہیں رکھتے۔ یہاں کھانے کا لفظ اہلیہ سے پٹنے کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ ہم نے مرزا کو اپنی اہلیہ سے تو کبھی پٹتے نہیں دیکھا البتہ سنا ضرور ہے۔ اگرچہ ہم نے انہیں ایک اور خاتون سے پٹتے ضرور دیکھا ہے پوچھا کہ دوسری عورت سے اتنی محبت سے کیوں پِٹ رہے ہو کہ یہ تو محض آپ کی اہلیہ کا استحقاق ہے۔ کہا ہم نے ان خاتون سے زبانی نکاح کر رکھا ہے۔ پوچھا کہ اگر زبانی نکاح کر رکھا ہے تو اتنی سخت گیر خاتون سے جان چھڑانے کے لئے زبانی قطع تعلق بھی کر لو۔ کہا کوشش کی تھی اسی لئے یہ پٹائی ہو رہی ہے۔ خاتون نے ہمیں بھی ڈانٹ پلا دی اور کہا ‘زبان نہ کھلواؤ’۔ یاد آیا کہ محکمہ تعلیم اور محکمہ پولیس نے زبان کھلوانے پر کافی عملہ مامور کر رکھا ہے جبکہ کچھ اور محکمے زبان بند رکھنے کے دام دیتےہیں۔
ہم نے دیکھا ہے کہ بڑے بڑے قادر الکلام شعراء بھی زبان کی غلطی کر جاتے ہیں۔ مرزا ہی کو لیجئے۔ فرماتے ہیں
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
مرزا کو اس شعر میں یقیناً زبان کی بجاۓ دانت کا لفظ استعمال کرنا چاہئے تھا۔ یاد رہے کہ یہ ہمارے والے مرزا نہیں۔ ویسے ہمارے والے مرزا بھی عجیب ہیں۔ اکثر مرزا غالب، مرزا رسوا اور مرزا بیدل کے اشعار اپنے نام سے سنا دیتے ہیں۔ ایک دفعہ محکمہ انسداد سرقۂِ اشعار نے دھر لیا۔ یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ وہ بحیثیت مرزا ایسی تمام نظموں اور غزلوں کے وارث ہیں جو کسی مرزا نے لکھی ہوں۔
زبان کے چند اور مسائل بھی ہیں جو احاطۂ تحریر میں نہیں لاۓ جا سکتے۔ اسی طرح منہ زبانی اور بد زبانی کے کچھ فوائد اور نقصانات بھی یہاں بیان نہیں ہو سکتے۔ زبان کے یہ مسائل ایسے ہیں کہ ان کے ذکر سے مذید مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ جیسے فیس بک کے اہلِ دانش اس بات پر تقسیم ہیں کہ مسائل بنائے جاتے ہیں یا کھڑے کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ آواز دی جاتی ہے یا ماری جاتی ہے۔