کامیاب اور ترقی يافتہ قوموں کی تاریخ اٹھا کر ديکھيں تو ان کی ترقی میں ان کی قومی و مادری زبانوں کا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ کم و بیش ہر مہذب و ترقی یافتہ قوم نے اپنے کامیابی کے سفر کا آغاز اپنی قومی زبان کو کلی طور پر رائج کر کے کیا ہے۔ بھرپور تحقیق کے باوجود راقم ابھی تک ايسی کوئی ترقی یافتہ قوم یا ملک تلاش نہیں کر سکا جس نے کسی دوسرے کی زبان اپنا کر ترقی کی منازل طے کی ہوں۔
کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ ہميں آزادی حاصل کيے سات عشرے گزر گئے مگ ہم اپنی قومی زبان اردو کو مکمل طور پر رائج نہ کر سکے۔ حالانکہ اردو بہت پرانی، جامع اور وسیع ذخیرہ الفاظ کی حامل زبان ہے۔
قارئين، انسان کی اپنی زبان سے انسيت و محبت کا سفر اس دنيا میں آنکھيں کھولتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان اپنی ماں کی گود سے سيکھنا اور پڑھنا شروع کرتا ہے۔ ماں کی لوری، ڈانٹ ڈپٹ،تربیت اور سکھانے کا تمام عمل اپنی زبان میں ہی ہوا کرتا ہے۔ کچھ بڑا ہوتا ہے اپنی زبان کی مدد سے ہی اپنا پیٹ بھرتا اور والدین سے اپنی فرمائشیں پوری کرواتا ہے۔
سکول میں پڑھنے کا آغاز بھی اپنی زبان سے ہوتا ہے۔ اگر ہم سرکاری سکولوں کی بات کريں تو پرائمری تک ساری پڑھائی اردو میں ہوتی ہے مگر بچے کی مشکلات کا اصل آغاز چھٹی جماعت سے شروع ہوتا ہے جب انگریزی کو بطور لازمی مضمون پڑھنا پڑتا ہے۔ اردو اور انگریزی کی آنکھ مچولی میٹرک تک چلتی ہے اور کالج میں قدم رکھتے ہی نئی افتاد آن پڑتی ہے کہ تمام سائنس کے مضامين انگریزی میں ہوتے ہيں۔ یوں زیادہ صلاحیتں اور وقت اصل علم حاصل کرنے کے بجائے انگريزی کی لغات ٹٹولتے اور مہارت حاصل کرنے میں صرف ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں جا کر اردو بطور لازمی زبان والا باب ہی بند ہو جاتا ہے۔
تمام سرکاری و قانونی امور اور خط و کتابت کے لئے انگریزی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو کی ایسی بے قدری اور بے توقیری دیکھنے میں آتی ہے کہ دلی افسوس ہوتا ہے۔ ہمارے احساس کمتری اور ذہنی غلامی کی انتہا دیکھیں کہ اردو پر عبوررکھنے والے مگر انگریزی میں کمزور طلبہ، افسران اور سیاستدانوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ مذاق اڑانے والے یہ کم فہم لوگ انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور چائنیز بولنے والے ممالک کی ترقی کے بنیادی راز کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔
قارئین، میں ہرگز انگریزی یا کسی دوسری زبان کے خلاف نہيں بلکہ اردو کو بنيادی اور قابل فخر حیثییت دیتے ہوئے باقی زبانوں پر عبور حاصل کرنے کو حالات کا تقاضا سمجھتا ہوں۔ اسی طرح چین، امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کی ترقی میں ان کی قومی زبانوں کا قابل قدر کردار دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہے کہ کوئی تو ہو جو ہماری قومی زبان کی بے توقیری پر بھی سو مو ٹو لے اور ہماری کامیابی و کامرانی کے سفر کا آغاز کرے۔
قارئین، یہ تو تھا ہماری قومی زبان کا حال۔ اگر ہم اپنے قومی لباس کی طرف دیکھيں تو یہاں بھی صورتحال چنداں مختلف نہیں۔
کچھ عرصہ قبل میں اپنا معمول کا چیک اپ کروانے ایک سرکاری ہسپتال میں گیا۔ ڈاکٹر کے کلینک کے آگے مریضوں کی لمبی قطار تھی۔ میں اپنا قومی لباس زیب تن کیے ہوئے تھا۔ معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری ہونے اور قوانين پر سختی سے عمل کرنے والے انسان ہونے کے ناطے سے میں بھی قطار میں کھڑا ہو گيا۔ میں نے اور قطار میں کھڑے ہر شخص نے یہ نوٹ کیا کہ کلینک کے دروازے پر کھڑا چپراسی شلوار قمیض پہنے ہوئے مریضوں کو درشت لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے قطار میں کھڑا کر رہا تھا اور اپنے تئيں قانون و انصاف کے تقاضے بھی پورے کر رہا تھا۔ اسی اثنا میں ٹائی اور سوٹ میں ملبوس ایک شخص قطار کو نظرانداز کرتا ہوا سیدھا آگے چلا گيا۔ بالکل خلاف توقع چپراسی نے اس کے ساتھ بڑے اچھے اور مؤدبانہ انداز میں چند جملوں کا تبادلہ کر کے سیدھا اندر بھیج دیا۔ اس کے بعد بھی ایسا ہی چلتا رہا اور کئی لوگ اسی طرح بغیر قطار اندر جاتے رہے۔ علاوہ ازیں ہم نے یہ بھی نوٹ کیا کہ شلوار قمیص والوں کو وہ چپراسی اوئے، بھائی، یار وغیرہ کے الفاظ سے اور بڑے سخت لہجے ميں مخاطب کر رہا تھا جبکہ پتلون پہنے افراد کو بڑے میٹھے لہجے میں سر سر کر کے بلا رہا تھا۔ ایک قوانین کی پاسداری کرنے والے اور حساس انسان ہونے کے ناطے مجھے اپنے قومی لباس کی ایسی ناقدری اور بے توقیری پر بہت دکھ ہوا۔ مگر خیر یہ ایسی کوئی نئی بات بھی نہيں تھی کہ ایسے واقعات آج کل ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اڈوں پر جائيں یا دفاتر میں ہر جگہ ایسے رويے دکھائی دیتے ہیں۔
قارئين، کہنے کو تو شلوار قمیص ہمارا قومی لباس ہے مگر عملی طور پر ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلند مرتبے اور حیثیت کا اظہار ٹائی اور سوٹ پہن کر کیا جاتا ہے۔ شادی کے دولہے سے لے کر افسران اور سیاستدانوں تک ہم نے عزت اور احترام کا معیار اسی لباس کو بنایا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اہم مواقع اور تقاریب میں شلوار قمیص پہننے والوں پر ہنسا جاتا ہے اور عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ میری اس لمبی تمہید کا مقصد کسی لباس کی توہین ہرگز نہيں بلکہ ہمارے قومی لباس کے متعلق ہمارے رویوں کی فقط نشاندہی ہے۔
ساتھ ہی ہمارے یہ رویے ہمارے احساس کمتری کا اظہار بھی کرتے ہيں جو سراسر غلط ہے۔ پڑوسی ملک اور کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی طرف دیکھیں تو ان کی اپنے اپنے لباس سے محبت و انسیت صاف دکھائی دیتی ہے۔ ان کے تو حکمران بیرونی دورے بھی بڑے فخر سے، قومی لباس پہن کر اور سر اٹھا کر کرتے ہيں۔
معزز قارئین، قومی ترقی و عروج کی منازل طے کرنے کے لئے دوسرے عوامل کے علاوہ قومی لباس، قومی زبان اور اقدار کے فروغ و حوصلہ افزائی کی طرف توجہ دینا بھی بےحد ضروری ہے کہ اپنے تشخص، پہچان اور احساس برابری کو اہمیت دیے بغیر آج تک کسی قوم نے ترقی نہیں کی۔
مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں