ثنا تاجک، پشتو موسیقی کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ

ثنا تاجک، پشتو موسیقی کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ
پشتو موسیقی کی دنیا میں کئی ناموں کا اضافہ پچھلے چند سالوں میں دیکھنے کو ملا جن میں ایک نام ثنا تاجک کا ہے جنہوں نے بہت کم عرصے میں نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی مقبولیت حاصل کی ہے۔ ہمہ جہت شخصیت کی مالک ثنا تاجک کا بنیادی تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور بچپن سے پشتو موسیقی کے ساتھ دلی لگاؤ تھا جس کے لئے نذیر گل استاد سے باقاعدہ طور پر موسیقی کے سُر، لے اور تال سیکھنے کے بعد کئی گانے ریکارڈ کیے جن میں ’جانان‘ اور ’ہلکہ چرتہ ئی‘ کوعوام کی جانب سے کافی پذیرائی ملی۔ اس کے علاوہ ثنا تاجک ماڈلنگ بھی کرتی ہیں اور کئی کمرشلز میں کام بھی کرچکی ہیں۔ وہ اس وقت اپنے نئے البم پر کام کر رہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ معیاری شاعری کو نئے طرز کے ساتھ ریکارڈ کر کے معاشرے میں پشتو موسیقی کو وسعت دیں کیونکہ آج کل زیادہ تر نئے آنے والے مقبولیت کے چکر میں ایسی شاعری ریکارڈ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف پشتو موسیقی کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ سننے والے بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔



ثنا تاجک نے 2015 سے باقاعدہ طور پر پشتو موسیقی کے میدان میں قدم رکھا اور تین سال کے کم عرصہ میں کئی ٹیلی وژن سکرینز پر اپنی سحر انگیز آواز کے جادو سے سننے والوں کو محظوظ کیا۔ اس کے علاوہ انہیں مختلف ڈراموں کی آفر بھی موصول ہوئی ہے لیکن وہ فی الحال پشتو موسیقی میں نام کمانا چاہتی ہیں اور اس کے علاوہ فارسی زبان میں بھی گانا گانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ سماجی رابطوں کے ویب سائٹ یوٹیوب پر ان کی پوسٹ کی گئی ویڈیوز کو اب تک لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور پسند کیا ہے اور اس کے علاوہ فیس بک پر بھی ان کے کئی گانے وائرل ہو چکے ہیں۔



ثنا تاجک ایک ایسے قدامت پسند معاشرے میں نام کمانے کی کوشش کر رہی ہیں جہاں فن اور فنکار کو بُری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ اس مائنڈ سیٹ کو بدلنا چاہتی ہیں. مزید وہ اس حوالے سے کہتی ہیں کہ اگر ایک لڑکی کو گھر یا خاندان کی جانب سے کوئی مسئلہ نہ ہو تو کوئی بھی اس کے سامنے حائل نہیں ہو سکتا بلکہ وہ اپنی کامیابی اپنے والدین اور بھائیوں کے نام کرتی ہیں جن کی وجہ سے ثنا تاجک نے موسیقی میں قدم رکھا ہے۔



آج کل فوک موسیقی تقریباً ختم ہو چکی ہے اور نت نئے آلات و ایجادات نے موسیقی کو ایک نئی پروان دی ہے لیکن ثنا چاہتی ہیں کہ وہ لوک موسیقی کو جدیت آلات میں رنگ لیں اور نہ صرف پرانی یادوں کو دلوں میں زندہ کریں بلکہ اخلاقی اقدار کے مطابق اسے سامعین تک نئی طرز میں لائیں۔ ثنا تاجک جس نئے البم پر کام کر رہی ہے اس میں زیادہ تر پرانے زمانے کے مشہور آرٹسٹ کے گائے گئے گانے ہیں جو صرف بیسویں صدیں تک موجود تھے لیکن آج کل وہ گانے کسی کو یاد بھی نہیں. وہ چاہتی ہیں کہ معشوق سلطان، قمروجان، زرسانگہ، کشورسلطان، ماجبین کے گانوں کو نئی طرز میں ریکارڈ کر کے سامنے لایا جائے۔

پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں خواتین موسیقاروں کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور پچھلے پانچ سالوں کے دوران بیس کے قریب گلوکاراؤں کو قتل کا نشانہ بنایا جا چکا ہے اور ڈیڑھ سو کے قریب تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود نئے گلوکاروں کا موسیقی کے میدان میں آنا خوش آئند ہے اور اس حوالے سے ثنا کہتی ہیں کہ وہ پبلک مقامات پر گانے نہیں گانا چاہتیں کیونکہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے انہیں پہلے بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔