"قوم چیف جسٹس سے مایوسی نہیں، انصاف چاہتی ہے"

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے جب سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے وہ بہت ہی کم دکھائی یا سنائی دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ھے کہ انکی پوری توجہ موجودہ عدالتی نظام کی بہتری پر مرکوز ہے۔ وہ اپنے مقصد کی تکمیل میں اتنے مگن تھے کہ اسی دوران نون لیگ نے ان کے بھولے پن کا فائدہ اٹھا کر میاں نواز شریف کے لیے چھ ہفتوں کی ضمانت بھی ہتھیا لی۔ تاہم جلد ہی انہیں اس ہمدردانہ مگر قانونی فیصلے کے دوسرے اثرات کا اندازہ ہوگیا اور وہ انہوں نے یہ مقدمہ داخل دفتر کرتے ہوئے گیند اسلام آباد ہائی کورٹ کے صحن میں پھینک دی۔ اپنے مختصر عہد عدل کے وسط میں ہی انہیں ایک اور غیر معمولی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ صدر مملکت نے جسٹس فیض عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج دیا ہے۔

سیاستدان، وکلاء، میڈیا اور مفکرین حتکہ عوام تک اس معاملے میں ذہنی تقسیم کا شکار ہیں۔ باہر کی دنیا بھی اس فیصلے کو قانونی نظر سے ہی پرکھے گی جبکہ تاریخ خود گواہ ہے کہ وہ کسی کو معاف نہیں کرتی چاہے وہ نظریہ ضرورت ہو یا پھر بھٹو کی پھانسی کا معاملہ ہو۔

شاید تناؤ کی اسی کیفیت میں چیف جسٹس نے ملک کی مجموعی صورتحال پر ڈپریشن یا افسردگی کا واضح اظہار کرتے ہوئے قوم کو بتایا ہے کہ ہر طرف سے بُری خبریں آ رہی ہیں۔ ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے سابقہ وزیر خزانہ اسد عمر کے الفاظ کو دہرایا اور معیشت کے “ای سی یو” میں ہونے کو اپنی افسردگی سے تعبیر کیا۔ پھر انہوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی عالمی کپ کے دوران شکست اور اس کا قوم پر بُرا اثر بھی اپنے ڈپریشن کی وجہ کے طور پر بتایا ہے۔ قومی اسمبلی کے وہ حالات جہاں قائد عوام اور قائد حزب اختلاف کو بولنے تک نہیں دیا جا رہا ہے انکا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے جمہوریت کو نہ صرف اسکی اوقات دکھائی بلکہ اسے اپنے ڈپریشن کی وجہ بھی قرار دیا۔ ایران اور امریکہ کےدرمیان ممکنہ جنگ اور افغانستان کے حالات کو ناسازگار بتاتے ہوئے انہوں نے نام لیے بغیر یہ ذمہ داری بھی کسی کے کندھوں پر ڈال دی۔ یہ وہ چوتھی چیز تھی جسکی وجہ سے بقول چیف جسٹس وہ مندی یا ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے واضح الفاظ میں قوم کو یہ بھی بتادیا ھے کہ عدلیہ وہ واحد حکومتی ادارہ ہے جو اپنی ذمہ داریاں پوری تندہی اور آئینی طریقے سے سرانجام دے رہا ہے اور وہ خود ان چیزوں کو ٹھیک کر رہے ہیں جن پر پہلے کبھی کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔

چیف جسٹس نے مشرقی سرحدوں یا بھارت سے معاملات کا کوئی ذکر نہیں کیا حالانکہ آج کے پاکستان کو ان حالات میں پہنچانے اور بہتری کی کوششوں میں رخنا ڈالنے میں بھارت دوسرے ہمسایہ ممالک سے کافی آگے ہے۔ شاید انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا یا وہ افسردگی کی حالت میں بھول گئے تھے۔ چیف جسٹس پاکستان ایک لمبا سفر طے کرکے آج اس عہدے پر فائز ہیں مگر انکے ڈپریشن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ساری خرابیاں انہوں نے پہلے کبھی پاکستان میں ہوتی نہیں دیکھی تھیں۔ تشویش اس بات کی بھی ہے کہ ملک کی سب سے اعلی عدلیہ کے سربراہ بُری خبریں سن کر ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں جبکہ پاکستانی عوام بڑے بڑے دعووں، بے باک و بے لاگ بیانات اور زبانی جمع خرچ کے عادی ہو چکے ہیں۔ بھٹو کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگائے تقریبا پانچ صدیاں بیت چکی ہیں اور اس دوران 26 سال جمہوری حکومتیں اور 19 سال مارشل لاء کا نفاذ رہا۔ آج کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ نہ تو غریب کو اب تک پیٹ بھر کر روٹی ملی ہے سوائے فوتگی، شادی یا انتخابی جلسے کے اور نہ ہی وہ پوری طرح کبھی تن کو کپڑوں سے ڈھانپ سکا ھے۔ غریب کے لیے چھت نہ پہلے کبھی کسی حکومت نے بنائی اور نہ ھی پچاس لاکھ گھروں کی بیل منڈے چڑھتی نظر آتی ھے۔ اس غریب عوام کی حالت یہ ہے کہ “جنے لایا گلی اودے نال چلی” یعنی جو امید دلاتا ھے اور خواب دکھاتا ہے یہ عوام اس کے پیچھے بھیڑ بکریوں کی طرح چل پڑتی ہے۔

آجکل یہ غریب عوام “بلے” کے پیچھے ہیں اور اس بات کا خدشہ ہے کہ جلد وہ اس بلے کے پیچھے نہ لگ جاہیں۔ اس سے پہلے عوام “تیر” کے پیچھے بھی تھے مگر پھر ایسے پیچھے لگے کہ اب سندھ میں بھی” تیر”کے حق میں نعرے لگانے کے لے یا تو اسی تیر کو غریب عوام پر تاننا پڑتا ہے یا پھر قائد اعظم کی مختلف مگر رنگین تصویریں دکھا کر کام چلایا جا رہا ہے۔

جناب ! چیف جسٹس صاحب آپ پچھلے دو سال کی مہنگائی ہی دیکھ لیں۔ کتنی جلدی کتنے لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ کیا اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت ہے؟ آفرین ہے اس غریب عوام پر جس نے سوائے شکوہ کے کبھی کچھ نہیں کیا۔ اور خوبصورتی یہ ہے کہ غریب عوام نہ جانے کب سے جواب شکوہ کی منتظر ہے۔ اصل میں غریب پاکستانی عوام اپنی ذمہ داری کے بوجھ تلے دبی پڑی ہے اور بیمار تک ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔ ڈپریشن یا افسردگی جیسی کیفیت کے لئے انکے پاس نہ ہی وقت ہے اور نہ ہی حالات انہیں ایسی کیفیت کی اجازت دیتے ہیں ورنہ دو وقت کا چولہا جلانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی سب سے اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ بُری خبریں  سن کر افسردگی یا ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں تو یہ واقعہ ہی ایک بڑی اور بُری خبر ہے۔ فکر اس بات کی بھی ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ اور اس کے جج صاحبان اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ مراعات یافتہ طبقہ ہونے کے باوجود افسردگی کا شکار ھو گئے ہیں تو عام پاکستانی کی کیا حالت ہوگی؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈپریشن دنیا کی سب سے ذیادہ عوامی بیماری ہے اور تقریبا 350 ملین لوگ عالمی سطح پر اس بیماری کا شکار ہیں۔

طبعی سائنس ابھی تک اس کی وجوہات پر مکمل آگاہی نہیں رکھتی تاہم ابھی تک کی تحقیق کے مطابق یہ وجوہات پیدائشی، حیاتی، حالاتی یا پھر نفسیاتی ہو سکتی ہیں۔ میری ذاتی رائے میں یہ وہ ملکی حالات ہیں جنہوں نے چیف جسٹس کے لیے اس ناامیدی کی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ تشویش اس بات کی ہے کہ طبی سائنس کی رو سے ڈپریشن  کی کیفیت جہاں دوسرے منفی اثرات اور رجحانات  کا باعث بن سکتی ہے وہاں یہ فیصلہ سازی کی قوت میں بھی بگاڑ پیدا کرسکتی ہے۔ لہذا یہ غیر معمولی حالات ہیں جن میں غیر معمولی فیصلہ سازی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

قومی اسمبلی کے ممبران نے تو چیف جسٹس کی بات کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے واضح اور عملی تبدیلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ چابی چاہے جس نے بھی گمائی ہے اسکا سہرا اعلی عدلیہ کے سر ہے۔

اب تو قائد حزب اختلاف نے لمبے ترین خطاب کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے اور اسمبلی ممبران گالیوں کی بجائے کتابوں کے حوالے سے کرپشن ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے تو اپنا بجٹ بھی تقریباً  پاس کر دیا ہے جس سے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ھے۔ اب قومی اسمبلی کے سپیکر کو چاھیے کہ  وہ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الفاظ کے چناؤ سے لے کر نماز، چائے اور رفع حاجت جیسے معاملات پر واضع قانون بنا ڈالیں۔

اگرچہ کرکٹ ٹیم کو عارضی طور پر جس طریقے اور زبان میں سمجھانا تھا شاید سپہ سالار نے سمجھا دیا ہو۔ تاہم زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور کرکٹ ٹیم کے اندر بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک پرانے پنکچر لگے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے اکثر ہوا نکلتی رہتی ہے جو قوم اور چیف جسٹس کے ڈپریشن  کا باعث بنتی ہے۔

جن وجوہات کا چیف جسٹس نے ذکر کیا تھا وقتی طور پر کم از کم پچاس فیصد وجوہات کا تدارک ہو چکا ہے۔  ایران اور افغانستان کے معاملات میں پاکستان کی حیثیت بارہویں کھلاڑی جیسی ہے۔ اس لئے باقی صرف ایک بڑا معاملہ رہ گیا ہے یعنی ملکی معیشت اور اس کی زبوں حالی۔

معیشت براہ راست عام آدمی کو متاثر کرتی ہے اس کے لیے کوئی آئینی حدود اڑے نہیں آ سکتیں۔ کیا چیف جسٹس آف پاکستان نے قوم کو معیشت کے بارے میں صرف خبر دی ہے جس سے قوم پہلے واقف نہیں تھی؟  قوم  آپ سے صورت حال نہیں بلکہ اسکی وجہ اور غفلت برتنے والوں کے احتساب کی خبر سننا چاھتی ھے۔ کیا پاکستانی معیشت ایک صحت مند فصل تھی جو کہ پاکستان تحریک انصاف کی غلط  کھاد کے استمال سے شدید متاثر ہوہی ہے؟ یا پھر ماضی میں معشیت کے کھیت کو تیار کیے بغیر اس میں بیمار بیچ بویا گیا اور پھر  فضلے سے اسکی آبیاری کی گی اور اب شاندار فصل کی توقع کی جا رہی ہے؟ کیا سچ کا جاننا اور اکثریت کا اسے ماننا غریب عوام کا آئینی حق نہیں ہے؟  ایسی غیر متناظرہ کوشش نہ صرف اصلیت کو سامنے لائے گی بلکہ مستقبل میں  ملکی معیشت کی درست سمت کا تعین کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔

پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے یہ مودبانہ التجا ہے کہ وہ ملکی معیشت کی موجودہ حالت کا معاملہ غریب آدمی کے مفاد میں   اپنے ذمے لیں تاکہ آپکا اور غریب عوام کا ڈپریشن اگر دور نہیں تو کم ہو سکے۔ یہ کسی بھی ڈیم سے کہیں بڑی خدمت ہو گی۔

میری رائے میں یہ ایک اہم ملکی، آئینی ، سماجی، اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اسکی قانونی حثیت پر بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا۔ ہماری عدلیہ، حکومت اور اسکے ادارے  چھ ماہ اور عدالتی یا سائنسی لحاظ سے دن رات ملائیں تو ایک سال  میں اگر یہ  کام نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں اس طرح کے بے لاگ  بیانات اور زبانی جمع خرچ پر آئینی پابندی لگا دینی چاہیے۔