جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں دینے والا احاطہِ سُپریم کورٹ تک آگیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکیاں دینے والا احاطہِ سُپریم کورٹ تک آگیا
صُبح 9 بجکر 15 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو سینئر اینکر اور صحافی حامد میر کمرہِ عدالت میں پہلے سے موجود تھے۔ سینیئر صحافی حامد میر صدارتی ریفرنس دائر ہونے سے قبل ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کے بارے میں اپنے کالموں میں خبردار کررہے تھے اور آج بھی اُنکو اِس دھمکی آمیز وڈیو پر تشویش تھی جِس میں اُنکا اپنا نام بھی شامل تھا۔ پورے ساڑھے نو بجے کورٹ آگئی کی آواز لگی تو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن پر مُشتمل دو روکنی بینچ آکر بیٹھ گیا۔

اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ آپ کے ادارے یہ سب سُن رہے ہیں؟ یہ کیا ہورہا ہے؟ کُچھ کیا بھی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نبے شکایت درج کروائی ہے۔ اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ یہ سائبر کرائم کا معاملہ تھا اِس لیے ایف آئی اے کو بھجوا دیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے اِس کیس کو سائبر کرائم ایکٹ دو ہزار سولہ کے تحت دیکھے گی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ ایف آئی نے آج تک ایسے معاملات میں کُچھ نکالا بھی ہے؟

چیف جسٹس گلزار احمد نے انکشاف کیا کہ اِس سے پہلے بھی بہت سے ججز کی شکایات ایف آئی اے کے پاس ہیں لیکن آج تک کُچھ سامنے نہیں آیا۔ چیف جسٹس کے بائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس اعجازالاحسن نے بینچ کے سربراہ کی بات آگے بڑھاتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ مُلک کے بڑے بڑے عہدیداروں اور اداروں کے نام لے کر بہت کُچھ کہا گیا، حامد میر صاحب کمرہِ عدالت میں موجود ہیں اُنکے بارے میں بہت کُچھ کہا گیا تو کیا ایکشن لیا ہے آپ نے؟ اٹارنی جنرل بولے سر حامد میر، مُحمد مالک، سابق صدرِ پاکستان اور سابق وزیرِ اعظم کا نام لیا گیا ہے وڈیو میں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے اگلا سوال پوچھا کہ اداروں کو اتنا وقت کیوں لگا نوٹس لینے میں؟ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے نے نوٹس لے لیا ہے اور کاروائی شروع ہوگئی ہے۔ اِس موقع پر اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی درخواست عدالتی عملہ کے حوالے کرتے ہوئے بینچ کو بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی شکایت کے دو پیرا گراف ہیں ایک اِس وڈیو کے بارے میں اور دوسرا شہزاد اکبر اور دیگر سے متعلقہ ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وڈیو کے معاملہ پر حکومت سائبر کرائم ایکٹ کے علاوہ انسدادِ دہشت گردی کی شق چھ بھی لگانے پر غور کررہی ہے۔ چیف جسٹس نے مُختصر سماعت کے بعد حُکم لِکھوانا شروع کیا تو ایک خاتون وکیل نے کھڑے ہوکر استدعا کی کہ وڈیو میں دھمکی دینے والے افتخار الدین مرزا تحریری معافی نامہ کے ساتھ اپنی پوزیشن واضح کرنے کورٹ روم نمبر ون آئے تھے لیکن عدالتی اسٹاف اور پولیس اُنکو اُٹھا کر لے گئی ہے۔

چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے اسٹاف سے پوچھا کہ اگر افتخار الدین سُپریم کورٹ میں  موجود ہیں تو اُنکو لے آئیے۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اور افتخار الدین مرزا کو دو جولائی کو سُپریم کورٹ میں پیش ہونے کا حُکم لِکھوا دیا۔

کمرہِ عدالت سے نکل کر سینئر صحافی حامد میر جارہے تھے تو قتل کی دھمکیاں دینے والے ملزم افتخار الدین مرزا کے بیٹے اور وکیل نے حامد میر سے معذرت کی۔ یاد رہے دھمکی آمیز وڈیو میں افتخارالدین مرزا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ اینکر حامد میر کا نام بھی لے رہے ہیں۔ حامد میر نے افتخارالدین مرزا کے بیٹے سے بار بار استفسار کیا کہ وہ بتائیں اُنکے والد کی وڈیو کِس نے بنائی اور کِس نے ایڈٹ کرکے سوشل میڈیا پر پھیلائی لیکن اُس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکی والی وڈیو میں اپنا نام موجود ہونے کی وجہ سے سینئر صحافی حامد میر نے اپنے وکیل جہانگیر جدون کے ذریعے سوموٹو کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کروا دی ہے۔ کمرہِ عدالت سے باہر نکلا تو پولیس ذرائع نے بتایا کہ افتخارالدین مرزا اپنا بیان ریکارڈ کروانے ایف آئی اے کے دفتر روانہ ہوچُکے ہیں۔

اِس وڈیو کو اِس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ماضی میں مُبینہ طور پر مُفتی حنیف قُریشی کی ایسی ہی اشتعال انگیز تقریر نے پولیس اہلکار مُمتاز قادری کو سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو شہید کرنے پر اُکسایا تھا۔