وزیراعظم عمران خان نیازی کی پاکستان قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اسامہ بن لادن کو 'شہید' کہنے پر ان کے مخالفین نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ عمران خان پر طرح طرح سے حملہ کر رہے ہیں۔ غرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
میرے نزدیک یہ کہنا کہ عمران کی زبان پھسل گئی جیسی کہ اکثر ان کے ساتھ ہوتا ہے ایک نہائت ہی کمزور اور نہ سمجھی کی بات ہے۔
جو لوگ پاکستان کی تاریخ اور اس کے امریکی سامراج کے ساتھ رشتہ اور پاکستان کی خارجہ پالیسی خاص کر افغانستان میں میں کردار سے واقف ہیں وہ اس کی 'سلپ آف ٹنگ' کہہ کر نہیں در گذر کریں گے۔
اس سے پہلے کہ ہم پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی پر نظر ڈالیں ہمیں اس بات کا بھی ذرا جائزہ لینا چاہئے کہ عمران خان کا ماضی اور شخصیت کیا ہے؟ اکثر تجزیہ نگار عمران خان کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے'پلے بوائے' والے کردار پر زیادہ زور دیتے ہیں لیکن دراصل عمران خان کا تعلق پاکستان/ہندوستان اور دنیا کے ان کلین شیویڈ 'مذہبی انتہا پسنوں' سے ہے جو سب کام بھی کر لیتے ہیں اور'رند کے رند رہے ۔۔۔۔' والی بات ہے۔
اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو براہ مہربانی امریکہ کے ٹوین ٹاور پر حملہ کرنے والوں کی شخصیت اور عمل کا جائزہ لے لیں۔
میرے نزدیک جو بات سمجھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ جب پاکستان کے فوجی حکمران جنرل محمد ضیا الحق نے افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دے کر امریکہ کے عزائم کی بھر پور مدد کی اور اس کام کے لئے اس نے پاکستان کی سر زمین دنیا بھر کے مذہبی انتہا پسندوں کے لئے کھول دی بلکہ اسلام آباد ان کا سنٹر بنا دیا تھا۔ جہاں سے دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں بشمول اسرائیل کی موساد کام کرتی تھی۔
اس وقت بھی پاکستان میں دو نقطہ نظر پائے جاتے تھی۔ سرکاری نقطہ نظر اور پاکستان کی اشرافیہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہم افغانستان میں اسلام اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں- امریکہ بھی افغانستان میں لڑنے والوں کو مجاہد کہتا تھا اور جن کی نہ صرف دام درمے سخنے مدد کرتا تھا بلکہ ان کے لیڈرون کو وایئٹ ہاوس بلا کر 'فریڈم فائٹر " کہتا تھا-
جنیوا معاہدہ تے تحت روس اپنی فوجیں افغانستان سے واپس لے گیا۔ جسے ہمارے بہت سارے تجزیہ نگار روس کی شکست اور پاکستان اور اسلام کی فتح قرار دیتے ہیں- تفصیل میں نہیں جاتا صرف اتنا عرض ہے کہ پاکستان نے طالبان بنائے ان کی کابل میں حکومت قائم ہوئی اور ملا عمر جس کا سربراہ تھا-
اسامہ بن لادن جو ایک زمانے میں امریکہ کا لاڈلہ تھا امریکہ کا دشمن نمبر ایک ہوگیا۔ وہ مخلتلف ممالک سے ہوتا ہوا افغانستان پہنچ گیا۔ امریکہ میں ٹوین ٹاورز پر حملہ کے بعد امریکہ نے افغانستان پرحملہ کردیا-
طالبان وہاں سے بھاگے، کہاں کہاں گئے اور کس نے انہیں پناہ دی۔ یہ بہت لمبی کہانی ہے جس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جانا ابھی باقی ہے۔
ان بھاگنے والون میں اسامہ بن لادن بھی تھا۔ وہ کہاں کہاں رہا کس کی حفاظت میں رہا کس کس نے اسے پناہ دی؟ آخر وہ کس کی مدد سے پاکستان مین ایبٹ آباد میں مارا گیا۔یہ ساری کہانی شائد بہت عرصہ عوام سے چپھی رہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی ہیلی کاپڑز نے اسامہ بن لادن کو پاکستان کی سرزمین ایبٹ آباد میں مار دیا۔
یہ راز ہے اور راز رہے گا، پہلی بات یہ کہ اسامہ اتنے سال کیسے امریکہ سے بچا رہا۔ دوسرا امریکہ ایبٹ آباد میں کیسے پہنچا؟
اب سوال شہادت کا ہے اگر آپ آج بھی سمجھتے ہیں کہ اسامہ بن لادن اسلام کا سپاہی تھا اور اسلام کی سربلندی کے لئے اس نے جان کی قربانی دی تو یقینناً وہ 'شہید' تھا-
اصل مسئلہ کی طرف کوئی نہیں آتا کہ کیا پاکستان کا دونوں ادوار میں ڈولروں کے عوض امریکہ کا ساتھ دینا درست تھا؟
چونکہ میں عمران کی سیاست اور شخصیت کو ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان وزیر اعظم پاکستان نے جانتے بوجھتے اور شعوری طور پر قومی اسمبلی کے فلور اسامہ بن لادن کو 'شہید' کہا ہے-
میرا تو عمران اور اس کے ساتھی جنہوں نے امریکہ سے ڈالروں کے عوض امریکہ کا افٰغانستان میں ساتھ دیا ان سے نظریاتی اختلاف ہے۔ اس لئے میرے نزدیک یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس ایک بات پر عمران کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا جائے۔ آخر میں یہ بھی عرض کروں گا اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ پاکستانی معاشرے میں عمران کے بہت سارے حامی ہیں۔ اگر کوئی شک ہو تو اسامہ کی شہادت پر ریفرنڈم کروا کے دیکھ لیں