چیف جسٹس عمر عطابندیال نے عمران خان کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ممکن ہے عمران خان کے پاس پیغام درست نا پہنچا ہو۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا،اٹارنی جنرل نے کل کا عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے باوجود عمران خان نے ڈی چوک پر پہنچنے کا کہا، کمرہ عدالت میں عمران خان کی تقریرکا کلپ چلایا گیا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے درخواست میں کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے احکامات کے برعکس اپنی تقاریر میں کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کا حکم دیا، حالانکہ سپریم کورٹ نے عمران خان کو سرینگر ہائے وے پہنچنے کا کہا تھا۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے سرکاری اورنجی املاک کو نقصان پہنچایا اورفائربریگیڈ کی کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ وفاقی حکومت نے عدالت سے استدعا کی کہ انصاف کے تقاضوں کومد نظررکھتے ہوئے توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پرامن احتجاج کی یقین دہانی پر پی ٹی آئی کو اجازت دی گئی تھی ، لیکن عدالتی حکم کے بعد عمران خان نے پیغام جاری کرکے کارکنوں کو ڈی چوک جانے کا کہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب ہمیں بتائیں کہ کیا حالات ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے حکم کو نظر انداز کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کل کیا کچھ ہوا آپ نے ہمیں بتانا ہے۔ ممکن ہے عمران خان کے پاس پیغام درست نا پہنچا ہو۔
،اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ روز جوکچھ ہوا اس میں پی ٹی آئی کی قیادت موجود نہیں تھی، عدالتی حکم کے مطابق سیاسی لیڈرشپ سے رابطے کا کہا گیا تھا۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ گزشتہ روز عدالت نے متوازن حکم جاری کیا تھا ، آئین کے آرٹیکل 16 اور 17 کے تحت حقوق حاصل ہیں لیکن وہ لامحدود نہیں ہیں، اسکے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایکشن لیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم اس معاملے پر مزید سماعت کرینگے، ساری صورتحال میں اصل معاملہ اختلافات ہیں، ہم اس سارے معاملے پر فیصلہ کرینگے، ہم سماعت کو دوسروں کےلیے مثال بنائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمومی طور پر عدالتی کارروائی واقعہ ہونے کے بعد ہوتی ہے، عدالت نے خود ثالث بننے کی ذمہ داری لی، پی ٹی آئی کو بھی حکومت پر کئی تحفظات ہوں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ جو کچھ کل ہوا ہے وہ آج ختم ہوچکا ہے، عدالت انتظامیہ کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتی ، عوام کے تحفظ کے لیے عدالت ہر وقت دستیاب ہے، عدالت نے عوام کے مفاد کے لیے چھاپے مارنے سےروکا تھا، عدالت چھاپے مارنے کے خلاف اپنا حکم برقرار رکھے گی، یہ عدالت عوام کے قانونی تحفظ کےلیے ہے، قانون اور عوامی حقوق کی کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو عدالت ہروقت موجود ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کسی کو بھی بغیر جرم کے گرفتار نہ کیا جائے،یہ عدالتی حکم برقرار رکھتے ہیں، تحریک انصاف کی قیادت پرامن رہنے کےلیے ہدایات جاری کرے،املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے، عدالتی احکامات پرعوام خود عمل کرے گی، اس معاملے میں عدالتی احکامات نیک نیتی پرمبنی ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آج صبح ڈی چوک پرکیا ہوا تھا؟ حکومت قانون کے مطابق اپنا کام کرے، کل ٹی وی بند کرد یئے گئے، ایسے حالات سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی