دنیا کے باشندو، جھوٹی خبروں کے خلاف متحد ہو جاو

دنیا کے باشندو، جھوٹی خبروں کے خلاف متحد ہو جاو
ہم جس صدی میں جی رہے ہیں اسے عام طور پر معلومات کی صدی قرار دیا جاتا ہے۔ اس دور میں ایک بٹن کو کلک کرنے سے ملی سیکنڈز کے اندر معلومات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہیں۔ معلومات کی اس قدر تیز رفتار ترسیل نے دنیا کو تبدیل کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال تیونس کے ایک گلی کے ریڑھی بان محمد بو عزیزی کی ہے، جس کی خود سوزی نے 2010 میں عرب دنیا میں بغاوت کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا۔ موقع پر موجود گواہوں کے مطابق حمدی نامی خاتون جو کہ کونسل انسپکٹر تھی، اس نے بو عزیزی کے پھل تحویل میں لینے کی کوشش کی جب بوعزیزی نے اس پر مزاحمت کی تو اس خاتون نے اسے تھپڑ جڑ دیا اور اپنے ساتھیوں کو بو عزیزی کو مارنے کا کہا۔ اسی روز ریاستی اداروں کے ہاتھوں تذلیل اور تضحیک کا شکار ہونے کے بعد بوعزیزی نے دل برداشتہ ہو کر خود کو آگ لگا لی۔ وہ چار جنوری کو مر گیا۔ اس شخص کی خود کو آگ لگانے کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور یہ عرب دنیا میں ہنگاموں اور پھر بغاوت کی پہلی کڑی بن گئی۔ دہائیوں پر محیط بادشاہتوں اور آمریتوں کو لوگوں نے آنے والے سالوں میں اکھاڑ پھینکا۔ اس سارے عمل میں سوشل میڈیا نے ایک ہتھیار کا کام سرانجام دیا۔ یہ ہتھیار ٹینکوں اور ایٹمی میزائلوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔



میرے بچپن کے ایام میں ایک دفعہ میں اپنے مرحوم چچا سے فلسفے پر گفتگو کر رہا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ "فلاسفروں کی ایک پوری فوج بھی ایک جھوٹ کو سچ میں تبدیل کرنے کیلئے ناکافی ہوتی ہے"۔ میں نے اس بات پر مکمل اعتبار کیا جب تک کہ میرا پالا سوشل میڈیا سے نہیں پڑا تھا اور جب تک میں نے جوزف گوئبلز کی کتابیں نہیں پڑھی تھیں۔ ہٹلر کے جابرانہ دور میں جوزف گوئبلز نازی جرمنی کا 1933 سے لیکر 1945 تک وزیر اطلاعات رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ "مسلسل دہرانے اور لوگوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اس پر اثر انداز ہوتے ہوئے لوگوں کو ایک مربع کو ایک گول دائرہ سمجھنے پر راغب کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ الفاظ کو باآسانی دھوکہ دہی اور جھوٹ کو سچ بنانے کیلئے توڑ مڑوڑ کر پیش کیا جا سکتا ہے"۔ یہاں قارئین کے دماغوں میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اکیسویں صدی جو کہ معلومات کی تیز ترین ترسیل کی صدی کہلاتی ہے، اس میں گوئبلز اور اس کی کہی ہوئی بات دہرانے کا کیا فائدہ کیونکہ یہ باتیں اب موجودہ دور میں کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتیں۔

فیس بک کو ایجاد ہوئے 12 برس ہو چکے ہیں جبکہ مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹر کو قائم ہوئے 14 برس ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مختلف ویب سائٹس پر لاتعداد افراد معلومات شئیر کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اکثر و بیشتر حقیقت اور افسانے میں تمیز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ان ویب سائٹس پر شائع کردہ مواد اکثر نہ تو تصدیق شدہ ہوتا ہے اور نہ ہی اعداد و شمار اور حقائق کو جانچنے کیلئے کسی قسم کا حوالہ یا کوئی ویب لنک دیا جاتا ہے۔ جھوٹی خبروں کو پھیلانے کا رجحان کچھ عرصے میں بہت زیادہ پروان چڑھ گیا ہے۔ سوشل رابطوں کی ویب سائٹس پر کس قدر آسانی سے جھوٹی خبریں پھیلتی ہیں اس کا اندازہ اس وڈیو کو دیکھ کر ہو جاتا ہے جس میں عمران خان سے ملتا جلتا ایک شخص سوزوکی مہران چلا رہا ہے۔ اس وڈیو کو دیکھ کر لاتعداد پاکستانی، جن میں اکثریت حکمران جماعت کے حامیوں کی تھی، وزیراعظم کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے لگ گئے۔ کچھ افراد نے عمران خان کا موازنہ اسلامی ریاست کے خلیفہ دوئم سے کرنا شروع کر دیا، جبکہ کچھ افراد نے عمران خان کو روئے زمین کا سب سے بہادر وزیراعظم قرار دے ڈالا کیونکہ وڈیو میں موجود شخص کسی بھی سکیورٹی فراہم کرنے والی گاڑی کے حصار کے بجائے تن تنہا گاڑی چلا رہا تھا۔ نیا پاکستان زندہ باد اور نیا پاکستان آباد رہے کے جذباتی نعرے پورے سوشل میڈیا پر چھا گئے۔ البتہ جلد ہی ان کا اختتام اس وقت ہو گیا جب عمران خان سے مشابہہ شخص خود سوشل میڈیا پر آیا اور وضاحتی پیغام دیا کہ گاڑی چلانے والا شخص وہ خود ہے، وزیراعظم پاکستان نہیں۔



ایک اور جھوٹی خبر جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے متعلق تھی۔ ڈان کی ویب سائیٹ کے آرٹیکل کا ایک جعلی سکرین شاٹ سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا جس میں لوگوں میں یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز امید سے ہیں اور ان کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہے۔ نتیجتاً ڈان نیوز کی ویب سائٹ کو ایک وضاحتی تحریر جاری کرنی پڑی جس میں اس جھوٹ کی نفی کرتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ کیسے جھوٹے سکرین شاٹ کی شناخت ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ جھوٹی خبروں میں اضافے کو روکنے کیلئے پاکستان کی وزارت انفارمیشن کو ایک ٹوئیٹر ہینڈل بنانا پڑا۔ لیکن پہلے دن ہی اس سرکاری اکاؤنٹ کو ٹویٹ کر کے لوگوں کو خبردار کرنا پڑا کہ سرکار کے اسی اکاؤنٹ کے نام سے ایک جعلی ٹوئٹر اکاونٹ موجود ہے جس سے ٹویٹر کے صارفین ہوشیار رہیں۔ یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ ساری دنیا میں دھوکہ دہی اور جھوٹ پر مبنی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

ڈان کے نام سے پھیلائی جانے والی جھوٹی خبر کا سکرین شاٹ


حال ہی میں کیمبرج انالیٹکا جو کہ ڈیٹا کے تجزیہ کی کمپنی ہے اور ٹرمپ کے انتخابی مہم میں معاون رہی ہے، اس پر فیس بک کے لاکھوں لوگوں کی معلومات ان کی منشا کے بغیر استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا۔ یہ ڈیٹا ایک ایسا طریقہ کار بنانے کیلئے چرایا گیا تھا جس کے تحت امریکی ووٹروں کو سیاسی اشتہارات دکھائے جاتے تھے۔ عوام کی خفیہ معلومات کو استعمال کر کے ان کی فیس بک والز کو اشتہارات اور پراپیگینڈے سے بھر دینا لوگوں کے انتخاب کی آزادی کے حقوق کے منافی عمل تھا۔ فیس بک کی تاریخ میں یہ سب سے بڑا ڈیٹا چوری کا واقعہ تھا۔



جھوٹی خبروں اور غلط معلومات کو جانتے بوجھتے پھیلانے کی یہ کہانیاں بھارت میں رونما ہونے والے واقعات کے سامنے بہت بے ضرر دکھائی دیتی ہیں، راجستھان کے دارالخلافے جے پور میں فیس بک کی پیغامات والی سروس واٹس ایپ پرفارمنگ آرٹس کی مدد سے جھوٹی خبروں کے خلاف باقاعدہ مہم چلا رہی ہے۔ بھارت میں واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد بیس کروڑ ہے جو کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے واٹس ایپ کے صارفین سے زیادہ ہے۔ مختلف میڈیا چینلز نے یہ رپورٹ دی ہے کہ جھوٹی خبروں کی وجہ سے بے شمار افراد کو ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جانے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ واٹس ایپ کی جھوٹی خبروں کے خلاف کوششیں محض خاکوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ اس نے ریڈیو اور اخبارات کے ذریعے بھی آگاہی کی مختلف مہمات چلا رکھی ہیں۔ اس جھوٹی خبر کے جن سے نمٹنے کیلئے واٹس ایپ فارورڈ میسج کی سہولت کو ایک خاص تعداد تک محدود کرنے کا بھی سوچ رہا ہے۔

الجیرین-فرانسیسی فلاسفر جیک ڈیریڈا کو وفات پائے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، لیکن آج بھی اس کا تخلیق کردہ کام افادیت کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے۔ غلط معلومات، پراپیگنڈا اور جھوٹی خبروں پر مبنی مثلث معاشروں کی ترقی کی قدرتی ترتیب اور رفتار کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ ڈیریڈا کی لکھی گئی کتابوں کو پبلک لائبریریوں کی مٹی سے آلودہ الماریوں سے نکالا جائے اور انہیں عوام کو پڑھایا جائے تاکہ وہ جھوٹی خبروں کی اس تباہ کن بیماری سے اپنے اذہان کو بچا سکیں۔ اس صدی کا سلوگن ہونا چاہیے "دنیا کے باشندو، حقائق کی اصل تہہ تک پہنچو"۔

مصنف اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک انسانی حقوق کے کارکن ہیں، اس وقت لاء سٹوڈنٹس کونسل کے صدر اور روشنی پبلیکیشن پاکستان کے مدیر ہیں۔ ٹوئٹر پر ان سے @sheraza29 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔