سرور بلوچ کی دکان پہلی ایسی دکان ہے جہاں لائبریری بھی قائم ہے۔ سرور بلوچ کہتے ہیں 'لوگ اب نا صرف بال بنانے یہاں آتے ہیں بلکہ مطالعہ کا لطف بھی اٹھاتے ہیں، لیکن جگہ کم ہے نہ زیادہ لوگ بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی زیادہ کتابوں کی گنجائش ہے'
سرور بلوچ کے لیے یہ کتابیں جیوز گوادر نامی ادارے نے عطیہ کیئے ہیں۔ جیوز لائبریری کے ساتھ ساتھ ایک سماجی و ادبی ادارہ بھی ہے۔ جیوز کے بانی کے بی فراق کہتے ہیں کہ اس عمل کا مقصد کتب بینی کی کلچر کو فروغ دینا ہے۔ وہ کہتے ہیں 'ہم نے محسوس کیا ہے کہ انسان جس چیز سے زیادہ قریب ہوگا اسے اس قدر زیادہ چاہے گا۔ تو کتابوں کو ہر اس جگہ پر ہونی چاہیے جہاں عام لوگ بیٹھتے ہوں، انتظار کرتے ہوں اور جہاں اکثر جاتے ہوں'
معراج بلوچ پانچویں کا طالب علم ہے اور چھٹی کے بعد بال بنانے کے لیئے آیا ہے اور اس وقت ایک بلوچی رسالہ کا مطالعہ کررہا ہے۔ معراج کہتے ہیں ' میں اسکول سے چھٹی کرکے بال بنانے کے لیئے آیا تھا جب کتابوں کو دیکھا تو اپنی باری کی انتظار تک یہ رسالہ پڑھ رہا ہوں'
سرور بلوچ کے بقول اب ان کے کسٹمرز اپنی باری کے لیے ضد اور جلدی کرنے کو نہیں کہتے بلکہ اپنی باری آنے تک مطالعہ کرتے ہیں۔
کے بی فراق کہتے ہیں کہ اس عمل سے انھیں بہت حوصلہ افزائی ملی ہے۔ دوسرے شہروں پسنی، جیونی اور کراچی سے بھی دوستوں نے نا صرف اس عمل کو سرہا ہے بلکہ وہ بھی ایسے لائبریریوں کی قیام کے لیئے کوشش کررہے ہیں تاکہ کتاب پڑھنے کی کلچر معاشرے میں گھر کر جائے۔