ہر سال 40 ہزار پاکستانی خواتین کی جان لینے والے بریسٹ کینسر پر اتنی خاموشی کیوں؟

ہر سال 40 ہزار پاکستانی خواتین کی جان لینے والے بریسٹ کینسر پر اتنی خاموشی کیوں؟
ہر سال اکتوبر کے مہینے کوعالمی ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے، بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جس کا  مقصد خواتین کے اندر اس بیماری کے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہیں۔ پوری دنیا میں خواتین سب سے زیادہ چھاتی کے کینسر کا شکار ہوتی ہیں۔سب سے پہلے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کینسر کیا ہے، کینسر ایک ایسی پیتھالوجیکل کنڈیشن ہے جس میں جسم کے نارمل خلیے ابنارمل یعنی کہ بے قابو ہوکر بڑھوتری کے شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے جسم میں کسی بھی جگہ پر گلٹی نمودار ہوسکتی  ہے۔جسے سائنسی اصطلاح میں ٹیومر (رسولی) کہتے ہیں جو کہ آگے چل کر کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے اگر یہ ٹیومر بریسٹ کے خلیوں میں بن جائے تو بریسٹ کینسر کا سبب بن جاتا ہے۔

ایشیائی ممالک میں بریسٹ کینسر سب سے زیادہ پاکستان میں پایا جاتا ہے، ہر سال تقریباً 90ہزار کے قریب نئے کیسز کی تشخیص ہوتی ہے جن میں 40ہزار خواتین کی موت ہوجاتی ہیں جبکہ آگاہی نہ ہونے کے سبب اکثر خواتین تشخیص ہی نہیں کرواتیں۔عام طور پر یہ مرض 50سے 60برس کی خواتین میں پایا جاتا تھا لیکن اب کم عمر خواتین بھی اس کا شکار ہونے لگے ہیں۔

پاکستانی خواتین خودتشخیصی اور چھاتی میں کسی قسم کی تبدیلی کو محسوس کرنے کے حوالے سے شعور اور آگاہی نہ رکھنے کے باعث بیماری کو بڑھا لیتی ہیں،جبکہ بروقت تشخیص بہت سارے مسائل سے بچاسکتی ہے ،  ماہرین کے مطابق جو دس فی صد خواتین کسی مسئلے کی صورت میں چیک اپ کرواتی ہیں ان میں بیماری دوسری یا تیسری اسٹیج تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ 75فی صد خواتین علاج نہیں کرواتیں اور پانچ سال کے اندر اندر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ایشیا میں، پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے حوالے اعداد و شمار تشویش ناک ہیں اور یہاں خواتین میں اموات کی دوسری بڑی وجہ چھاتی کا کینسر ہے۔

عالمی  ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2018 میں 627,000 خواتین چھاتی کے کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئیں جو دیگر کینسر کی اقسام سے ہونے والی موت کا تقریباً 15 فی صد ہے ۔

اگر بریسٹ کی وجوہات پر بات کی جائے تو مختلف عوامل ہیں جیسے ماحول، موروثی بیماریوں کاہونا یا خاندان میں کینسر یا بریسٹ کینسر کا پایا جانا، جین میں تبدیلی، موٹاپا، ماہواری بے قاعدگیاں، ورزش وغیرہ کا نہ ہونا۔ہمارے جسم میں کچھ ایسی جینز ہوتی ہیں، جو کہ کینسر کو روکتی ہیں۔ ان جینز میں تبدیلی (Mutations) کی وجہ سے کینسر ہو سکتا ہے،یہ بیماری موروثی ہے، یعنی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی ہے بریسٹ کینسر کی علامات میں خاص علامت گلٹی یا بریسٹ کا سخت ہوجانا ہے،بغل میں گلٹی کا پیدا ہوجانا، جبکہ چھاتی کے سائز، ساخت یا ایک پستان دوسرے سے مختلف نظر آنا،  اس کے علاوہ اگر نپل سے دودھ کے علاوہ کسی بھی قسم کا ڈسچارج ہو تو یہ بھی ممکنہ طور پر کینسر کی علامت ہوسکتا ہے لیکن بروقت تشخیص کیلئے ہسپتال سے ٹیسٹ کروانے چاہیئں۔

بریسٹ کینسر کی چار مختلف اسٹیجز  ہیں، پہلے دونوں بڑی حد تک قابل علاج ہیں تاہم تیسرے اور چوتھے مرحلے پر یہ بیماری خاصی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہے۔ پہلی سٹیج میں چھاتی میں گلٹی یعنی رسولی بنتی ہے جس کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں درد بھی ہوتا ہے۔دوسرے مرحلے میں یہ گلٹی نہ صرف بڑی ہوتی ہے بلکہ جڑیں بھی پھیلتی ہیں، یہ لِمف نوڈز میں داخل ہوکر اس کا سائز بڑھنے لگتا ہے۔ جس کے بعد یہ تیسرے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے۔ چوتھے اور آخری مرحلے میں کینسر لمف نوڈز سے نکل کر اب چھاتی کے گرد دیگر حصوں تک پھیل جاتا ہے۔

یہ سب سے زیادہ ہڈیوں، پھیپھڑوں، جگر اور دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس سٹیج میں طبی ماہرین کے مطابق مریضہ کی جان بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔تشخیص کے حوالے سے پاکستان میں متعدد طبی مراکز میں اس مرض کی مفت تشخیص کی جاتی ہے۔ یہ مفت سکریننگ اور میموگرافی 40 سال سے زائد عمر کی خواتین کے لیے ہے۔نوجوان لڑکیوں میں ابتدائی معائنہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان مراکز میں بائیوپسی کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ایسی خواتین جن کی عمر 50 سال یا اس سے زیادہ ہو ان کو مکمل طور پر سالانہ سکریننگ کروانی چاہیئے۔ اور ان کے ساتھ ساتھ وہ خواتین جو اپنی چھاتی میں کسی قسم کی گلٹی محسوس کریں تو فوراً کسی مستند ریڈیالوجسٹ سے رابطہ کریں تاکہ بروقت تشخیص سے بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔عام طور پر بریسٹ کینسر کا علاج اس کے مراحل دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں بریسٹ کینسر کا علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جاتا ہے۔

اگر بریسٹ کینسر پہلی ا سٹیج میں ہے تو رسولی  یا گلٹی نکال دی  جاتی ہے، اس عمل کو لمپیکاٹومی کہتے ہیں۔ کینسر اگر دوسری ا سٹیج میں داخل ہو چکا ہو تو اس صورت میں بھی اس رسولی  کا سائز بڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں بھی لمپیکاٹومی کی جاتی ہے۔پہلی اور دوسری اسٹیج میں زیادہ تر مریضوں کو کیمو تھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی، جبکہ اس بات کے 90 سے 95 فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ کم از کم پانچ سال تک ایسی کوئی گلٹی یا رسولی  نہیں بنے گی۔ جبکہ اس کے بعد کے مراحل  یعنی تیسر ے اور چوتھے مرحلے میں بریسٹ کینسر خطرناک شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں علاج کا طریقہ کیمو تھراپی ہی بچتا ہے یا چھاتی کو سرجری کے ذریعے پورے  جسم سے نکال لیا جاتا ہے۔کیموتھراپی کینسر کے خلیات کو تباہ کرتی ہے لیکن اس کے کئی مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔ بریسٹ کینسر میں روایتی ادویات اور کیموتھراپی کے ساتھ ساتھ ہومیوپیتھک ادویات بھی بغیر کسی مضر اثرات کے استعمال ہورہی ہیں جو کہ بہت ہی مفید ثابت ہورہی ہیں ، بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پہلی اور دوسری سٹیج میں ہومیوپیتھک ادویات کا استعمال کرایا جائے تو اس سے نہ صرف گلٹی یعنی کہ رسولی ختم ہوجائے گی بلکہ کینسر کا بڑھنا بھی رک جائے گا،کیونکہ کینسر میں خاندانی ہسٹری کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے اور ہومیوپیتھی واحد سسٹم ہے جس میں خاندانی ہسٹری کو مدِنظر رکھ کر خاندانی بیماریوں کے  رجحان کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،اس کیلئے وہ میازمیٹک ادویات کا استعمال کرواتے ہیں۔

سائنسی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہومیو پیتھک ادویات سے جین میوٹیشن یا کسی بھی خرابی کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کیلئے ماڈرن سائنس جین تھراپی کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ہومیوپیتھک ادویات کی سلیکشن ہر مریض کی انفرادی ساخت، پرانی ہسٹری، بیماریوں کے بارے معلومات، خاندانی ہسٹری، ماحول، احساسات اور دماغی علامات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔جس کی ماڈرن سائنس نے بلآخر تائید کردی ہے کہ ہر مریض کیلئے اسکی انفرادی دواء کا ہونا ضروری ہے ایک ہی قسم کی ادویات ہر مریض کو استعمال کروانا مفید ثابت نہیں ہورہا ہے۔