بریسٹ کینسر سے آگاہی کے لیے اکتوبرکے مہینے کو پوری دنیا میں پِنک اکتوبر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کئی ممالک میں اس سے متعلق ایونٹس منعقد کیے جاتے ہیں جن میں بریسٹ کینسر کے ہونے کی وجوہات، مرض کی پیچیدگیاں، علاج اوراس کی ابتدائی مرحلہ پر تشخیص کے حوالے سے بات کی جاتی ہے جس امر پر سب سے زیادہ روشنی ڈالی جاتی ہے وہ اس مرض کی ابتدائی مرحلہ پر تشخیص ہے کیونکہ اگر اس کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں ہی ہو جائے تو یہ بہت حد تک قابلِ علاج ہو جاتا ہے۔ اور اس سے ہونے والی اموات سے بچا جا سکتا ہے۔
انٹرنیشنل کینسر ریسرچ ایجینسی کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال تقریباً 13 لاکھ 80 ہزار خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے 4 لاکھ 58 ہزار خواتین کی ہر سال اس مرض سے موت واقع ہو جاتی ہے، جن خواتین کی بریسٹ کینسر سے موت واقع ہوتی ہے ان کا تعلق عام طور پر مڈل کلاس اور غریب خاندانوں سے ہوتا ہے اور موت کی بڑی وجہ مرض کی دیر سے تشخیص ہونا سامنے آتی ہے کیونکہ غریب اور مڈل کلاس خاندانوں میں اس پر دھیان دینے کا وقت ہی نہیں ہوتا جس کی وجہ گھر کے کاموں سے فرصت نہ ملنا اور پیسے کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے بریسٹ کینسر دنیا میں کینسر کی دوسری بڑی قسم بن گئی ہے۔
پاکستان میں ویسے تو کوئی ایسا نظام موجود نہیں ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اس وقت یہاں بریسٹ کینسر کے کتنے مریض موجود ہیں مگر اس مرض کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے پنک رِبن کے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہرسال تقریباً 90 ہزار خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے جن میں سے 40 ہزار خواتین کی ہر سال اس کی وجہ سے موت واقع ہو جاتی ہے۔
اسی طرح پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر کے پھیلنے کی شرح اس وقت ایشیا میں سب سے زیادہ ہے جوکہ بہت ہی تشویش ناک امر ہے۔
اسی لیے اس سال اکتوبر کے مہینے میں بریسٹ کینسر سے آگاہی کے لیے حکومتی سطح پر بھی کافی اقدامات کیے گیے جن میں وزیرِاعظم سیکریٹیریٹ اور مینارِپاکستان کو گلابی رنگ سے روشن کرنا اور پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیموں کے تیسرے ٹی ٹونٹی میچ کو پِنک میچ کا درجہ دینا شامل تھا۔ اس میچ میں وکٹس بھی گلابی رنگ کی استعمال کی گئیں۔اور دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے پنک ربن اپنی شرٹس پر لگایا۔ کچھ شائقین گلابی رنگ کے لباس پہن کر آئے۔ اور صدرِ پاکستان جناب عارف علوی نے کمنٹری باکس میں آکر بریسٹ کینسر سے آگاہی کےلیے بات بھی کی۔
یہ تمام اقدامت قابلِ ستائش تھے مگر ہمارے جیسے سماج میں اس طرح کے مرض سے آگاہی کےلیے اور بھی زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک یہاں پر لوگ اس پر بات کرنے سےاس لیے کتراتے ہیں کہ یہ ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق عورت کے نازک اعضاء سے ہے اس لیے اس پر کھلے عام بات نہیں ہو سکتی جو کہ سراسر غلط ہے۔
یہی بات اس مرض کی دیر سے تشخیص کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے ہر سال یہاں 40 ہزار خواتین اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں جو کہ بالکل بھی کم تعداد نہیں ہے ان خواتین کی زندگیاں بچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مگر اس کےلیے پِنک ربن جیسےصرف ایک ادارے کا کام کرنا کافی نہیں ہے ۔
اس کے لیے حکومتی سطح پر تمام سرکاری ہسپتالوں میں بریسٹ کینسر سے آگاہی کے سینٹر بنائے جانے چاہِیئں ۔جہاں پہ ناصرف اس مرض سے آگاہی فراہم کی جائے بلکہ خواتین کو مفت چیک اپ کی سہولت بھی دی جائے اور مرض کی تشخیص ہوجانے کی صورت میں علاج قابل ڈاکٹرز کی زیرِ نگرانی کیا جائے اور علاج کےلیے مالی معاونت بھی فراہم کی جائے۔ اور خواتین کے تعلیمی ادارواں میں بھی اس مرض سے آگاہی کےلیے سیمینارز کروائے جانے چاہیئں۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے شعبہِ صحت کی طرف اس مرض کے بارے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کم از کم اکتوبر کے مہینے میں ایک بھرپور آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ جس میں خواتین کو یہ باور کروایا جائے کہ باقی امراض کی طرح بریسٹ کینسر بھی ایک عام مرض ہے جس کاابتدائی مرحلہ پر تشخیص ضروری ہے اس لیے اگر کوئی گلٹی بریسٹ پر نمودار ہو تو اس کا چیک اپ کروانا بہت ضروری ہے تاکہ اس کا علاج کروایا جاسکے.
اس کے علاوہ میڈیا کو اپنے طور پر بھی اس مرض سے آگاہی سے متعلق پروگرامز کرنے چاہئیں جن میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز کو مدعو کر کے لوگوں کو اس مرض کی علامات اور علاج کے بارے میں بتایا جانا چاہئیے۔اس طرح کے اقدامات کر کے ہی ہماری خواتین کو اس مرض کی وجہ سے مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔
مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔