تعلیم کو بھی سرطان کا مرض لاحق ہے

تعلیم کو بھی سرطان کا مرض لاحق ہے
کچھ دن پہلے ڈجی صاحب نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا معیشت کو سرطان کا مرض لاحق ہے۔ نہیں جناب صرف اس کو نہیں پورا نظام ہی بیماری میں مبتلا ہے۔ عرض کیا ہے اقوام عالم میں کوئی بھی ملک اپنی ثقافت، تہذیب و تمدن، مذہب وغیرہ سے جانا جاتا ہے لیکن انیسویں صدی کے اوائل میں تعلیم کو بنیادی جُز بنا کر پیش کیا گیا۔ خواہ وہ سائنسی تحقیق ہو یا غیر سائنسی علوم پر دسترس حاصل کرنے کی جدوجہد ہو۔

لیکن ادھر الٹی گنگا بہی رہی ہے تعلیمی نظام کو اداروں نے جکڑا ہوا ہے چار صوبوں والے ملک میں چار نظامی تعلیم ہے اور وفاق کی کیا بات ہے۔ میٹرک کے امتحانات سے لے کر یونیورسٹی تک عجیب منظر سے گزرنا پڑتا ہے اور جب علمی دنیا میں قدم رکھنا ہو، تو اللہ حافظ۔

حال ہی میں پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پرائمری جماعت تک تعلیم مادری زبان اردو میں دی جائے گی۔ بے شک یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن پالیسی سازوں نے سوچا ہے کہ جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ڈور میں شامل ہوں گئے، جس کی بنیاد انگریزی ہے تو کیا بنے گا؟ ہمارے ملک کے سب سے سپریم امتحان کی بنیاد انگریزی ہے اور حال میں صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ماتحت ہونے والے امتحانات کے نتائج اس بات کا جواب ہیں کہ مختلف ڈسکورس کو شامل تو کر لیتے ہیں لیکن اس میں موجود خلا پر نہیں کرتے۔

کیا کبھی سوچا ہے ملک تعلیمی میدان میں پچھے کیوں ہے؟ سوال یہ ہے کہ کب معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گیا گاؤں کی جھونپڑی سے لے کر اے سی والی کلاس تک۔

نظام تعلیم کو بیماری میں مبتلا کرنے کا بنیادی سہرا ایچ ای سی کو بھی جاتا ہے۔ ان کی قابلیت اور دانائی پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن، نظام کو آسان بنا دو، پرٹیکل ورک کو شامل کرو۔ ڈسکورس کو تبدیل کرو، یہی منزل مقصود ہے ورنہ اقوام جاہلیت میں اضافہ نہ ہو جائے۔