شادی، انسٹیٹیوشن سے انڈسٹری تک

شادی، انسٹیٹیوشن سے انڈسٹری تک

شادی کی تقریب جاری تھی۔ لوگ رنگ برنگے جوڑے زیب تن کیے چہ مگوئیوں میں مصروف تھے۔ خواتین شرما کر کیمرا مین سے نظریں چرا رہی تھیں۔ کہیں پر کھانے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ اچانک ایک طرف خواتین کا جھرمٹ لگ گیا۔ گانے کی آواز کے پیچھے خاتون کے ہونٹوں کی حرکت پر غور کرنے سے معلوم پڑا کہ بری دکھائی جانے لگی ہے۔


امی! یہ بری کیا ہوتی ہے؟ میں نے امی سے پوچھا جو کہ مجھ سے چند قدم کی دوری پر بیٹھیں چاچو کی شادی کی ویڈیو دیکھ رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مجھے مختلف رشتہ داروں، جو کہ اب اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے، کے بارے میں بتا رہی تھیں۔


اول پڑھائی اور اس کے بعد نوکری سے منسلک مصروفیات کی وجہ سے میں نے اپنے ہوش میں چند ایک ہی شادیوں کی تقریبات میں شرکت کی مگر کبھی بھی بری دکھانے کی رسم نہیں دیکھی۔ شاید اب اس کا رواج نہیں رہا۔


"ہمارے زمانے میں بری دکھانے کا جوش ہی الگ ہوتا تھا۔ شادی سے چند دن پہلے ہی لڑکی کے گھر والے جو سامان تیار کرتے اسے بہت سلیقے سے سجا کر محلے والوں اور قریبی رشتہ داروں کو دیکھنے کی دعوت دیتے۔ شادی کے روز بھی لڑکے والے جو دلہن کے لیے جوڑے اور زیورات لاتے، اس کی نمائش کی جاتی تھی، خیر اب تو یہ بیتے دنوں کی بات ہے،" امی نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا۔


شادی کسی بھی شخص کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے جب وہ اپنی زندگی کے ہر پہلو، خوشی ہو یا غمی کو گزارنے کے لیے ایک ساتھی کو چن لیتا ہے۔ چنانچہ ہر معاشرے اور ہر مذہب میں اس دن کو یادگار بنانے کے لیے مختلف رسمیں اور طور طریقے رائج ہیں۔ اور تو اور شادی اب عالمی سطح پر معاشرے میں ایک انسٹیٹیوشن کا مقام بھی حاصل کر چکی  ہے۔ یوں تو دنیا بھر کے تمام کلچرز میں ہی خاندان کی نشوونما کے لیے شادی کرنے کا رواج ہے مگر یہ رواج جنوبی ایشیا اور خاص طور پر برصغیر میں الگ مقام رکھتا ہے۔


اگر بات خصوصی طور پر پاکستان کی کی جائے تو اس ملک میں شادی کی رسموں میں ثقافت کا عنصر نمایاں ہے۔ وہ ثقافت جس کی جڑیں متحدہ برصغیر سے جڑی ہوئی ہیں۔ عمومی خیال کے برعکس پاکستان میں چار نہیں بلکہ پانچ موسم آتے ہیں؛ سردی، گرمی، خزاں، بہار اور شادی۔


پاکستان میں شادی کا موسم سال میں دو بار عروج پاتا ہے۔ پہلا میٹھی عید کی خوشیوں کے بعد اور دوسرا محرم اور صفر کے اسلامی مہینے گزرنے کے بعد۔ اگر موسمی لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو یہ وقت شادی کے لیے آئیڈیل گردانا جاتا ہے، یعنی جاتی ہوئی گرمی اور ہوا میں خنکی کا احساس۔ ایسے میں انسان موسم کی سختی کی فکر سے بالاتر ہو کر شادی کی رنگینیوں اور خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔


آج کل پاکستان میں شادی کا سیزن اپنے روایتی زور پر ہے۔ مجھے بھی اب تک شادی کی تین دعوتیں موصول ہو چکی ہیں جن میں سے دو کو تو گھر کی شادی ہی گردانا جا سکتا  ہے۔ اسی شادی کی تیاریوں میں مصروف مجھے اپنی امی جان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ کچھ ہی دہائیوں میں کس طرح شادی کا کلچر دبے پاوٴں یکسر بدل چکا ہے۔


چاچو کی شادی کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر مجھے خصوصی احساس ہوا کہ اگرچہ وہ شادی بھی بہت سے رسم ورواج سے بھرپور تھی مگر اس شادی اور آج کے شادی کے کلچر میں زمین آسمان کا فرق واضح  ہے۔ کافی حد تک شاہانہ ہونے کے باوجود اس تقریب میں سادگی کا عنصر دیدنی تھا۔


امی کہتی ہیں کہ پرانے وقتوں میں شادیاں زمانہ حاضر کے مقابلے میں بہت مختلف ہوتی تھیں۔ زیادہ تر شادی کی تقریب گھر میں ہی ہوتی تھی۔ دلہن شادی سے ہفتہ دس دن پہلے ہی مایوں بیٹھ جاتی تھی۔ مایوں سے مراد زرد لباس زیب تن کرکے ایک الگ کمرے میں رہنا، نہ ہی  فضول میں کہیں آنا جانا اور نہ ہی بہت سے لوگوں سے غیر ضروری رابطے رکھنا۔ اس مایوں کے عرصہ میں دلہن کی بہنیں، کزنیں اور سہیلیاں اس پر مختلف قسم کے دیسی ٹوٹکے آزماتیں، ابٹن لگاتیں تاکہ اس کے حسن کو مزید نکھارا جا سکے۔


شادی کی تاریخ طے ہوتے ہی شادی والے گھر میں شام کے اوقات میں ڈھولک کے ساتھ ٹپے گانے کا اہتمام کیا جاتا جس سے سارے علاقے کو معلوم پڑ جاتا کہ شادی کے دن قریب یں۔ گاوٴں کے تمام لوگ بڑھ چڑھ کر شادی کی تیاریوں میں حصہ لیتے تاکہ دولہا یا دلہن کے ماں باپ کا بوجھ بانٹا جا سکے۔ مجھے آج بھی یاد ہے اکثر امی بتایا کرتی ہیں کہ فلاں گھڑی میری فلاں دوست نے مجھے شادی میں تحفے میں دی تھی اور میرے ننھیال کی کس بزرگ عورت نے انھیں کونسی مشینری شادی پر تحفے میں دی۔


اس زمانے میں شادی کی تقریب زیادہ  ترگھروں  میں  ہی طے پاتی یا محلے میں کسی بڑی چھت یا صحن والے گھر  میں ٹینٹ لگا کرمہمانوں کی خاطر تواضع کا اہتمام  کیا  جاتا۔  جبکہ  دولہا  اور  دولہن  بظاہر  عروسی  جوڑوں  میں  ملبوس  شرم  کا  لبادہ  اوڑھے  سب  سے  مبارکباد  وصول  کرتے۔


اس  کے  برعکس  آج  کے  زمانے  میں  شادی  کی  تقریبات  سے  لے  کر  رسم  و  رواج  تک  سب  کچھ  یکسر  بدل  چکا  ہے۔  شادی  کی  رسمیں  اور  تقریبات  ہفتوں  سے  بڑھ  کر  مہینوں  تک  چلتی  ہیں۔  ان  تقریبات  کا  آغاز  سپا  ڈے  سے  ہوکر  برائیڈل  شاور،  ڈھولکی  نائٹ،  مہندی،  بارات،  ولیمہ  اور  پوسٹ  میرج  میوزیکل  نائٹ  تک  جاری  رہتا  ہے۔


اس نئے  دور کی شادیوں میں سادگی اور شرم  کی جگہ اب  گلیمر اور سوشل میڈیا  ٹرینڈز  نے لےلی ہے۔  ان  نئے  ٹرینڈزنے شادی  کو  انسٹیٹیوشن سے  بڑھ  کرانڈسٹری  بنا دیا ہے جہاں ڈیکوریشن  کمپنیوں سےلےکرعروسی ملبوسات  کے ڈیزائنرز اور میک اپ آرٹسٹس  تک  دن  دگنی،  رات  چگنی  ترقی  کرتے  دکھائی  دیتے  ہیں۔ ان سب تبدیلیوں  میں  سب  سے  گہرا  اثر  انفلوئینسر  کلچرکا  ہے  جو  غیر  حقیقی  ٹرینڈ  سیٹ  کرنے  میں  کوئی  کسر  نہیں  چھوڑتا۔


دو  دہائیوں  کے  عرصہ میں ان بدلتے ہوئے رسم و رواجوں اور کلچر میں اگرکچھ  نہیں  بدل  پایا  تو  وہ ہے جہیز  کا  کلچر۔  آج  بھی  ہمیں  بہت  سے  رشتے  صرف  اس  لیے  ٹوٹتے  ہوئے  دکھائی  دیتے  ہیں  کیونکہ  لڑکی  کے  والدین  لڑکے  والوں  کی  ڈیمانڈز  پر  پورا  نہیں  اتر  سکے۔  عین  اسی  وقت  لڑکوں  پر  بھی  پرفیکٹ  شوہر  کی  ڈیفینیشن  میں  پورا  اترنے  کے  لیے  چیک  لسٹ  لمبی  ہوتی  جا  رہی  ہے۔


اس  تمام  اثنا  میں  ایسی  شادیوں  کے  واقعات  جہاں  لڑکا  اور  لڑکی  شادی  سے  جڑے  دقیانوسی  تصورات  اور  نئے  زمانے  کے  سوشل  میڈیا  ٹرینڈز  سے  بالاتر  ہوکر  اس  کنٹریکٹ  کو  سوچ  سمجھ  کر  رشتہ  ازدواج  میں  جڑتے  ہیں،  تازہ  ہوا  کے  جھونکے  سے  کم  نہیں۔  ضرورت  اس  امر  کی  ہے  کہ  شادی  کو  صرف  ایک  تقریب  یا  رسم  سے  بالاتر  ہوکر  دو  لوگوں  کے  سنگھم  کے  طور  پر  دیکھا  جائے  اور  اس  حوالے  سے  فیصلے  جہیز،  اسٹیٹس  اور  دیگر  ٹرینڈز  سے  ہٹ  کر  دو  لوگوں  کی  زہنی  اور  باہمی  مطابقت  کو  مدنظر  رکھ  کر  کیے  جائیں۔

مصنّفہ منٹ مرر سے وابسطہ ہیں۔ اس سے قبل دنیا نیوز، جی این این، دی نیشن اور ڈیلی ٹائمز کے ڈیجیٹل ڈیسک سے منسلک رہ چکی ہیں، سوشل ایشوز اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔