'جب انکو معلوم ہوا کہ فسادات میں ہمارا گھر لٹ چکا ہے تو انہوں نے بارات لانے سے انکار کردیا'

'جب انکو معلوم ہوا کہ فسادات میں ہمارا گھر لٹ چکا ہے تو انہوں نے بارات لانے سے انکار کردیا'
کوئی دن جاتا نہیں کہ دہلی فسادات میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے انسانیت سوز مظالم کی نئی المناک داستان سننے والوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ ایسی ہی کہانی ہے 20 سالہ رخسار کی جن کی شادی چند روز بعد طے تھی کہ ان کا گھر بار اور مال و متاع سب فسادیوں نے لوٹ لیا۔ یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ شمال دہلی کے غریب علاقے کی رہنے والی رخسار ایک سبزی فروش کی بیٹی ہیں۔

انکی شادی چند روز بعد ہونا طے تھی کہ بلوائیوں نے انکے گھر پر دھاوا بولا، قریب تھا کہ وہ انکو اور انکے خاندان کے دیگر افراد کو مار ڈالتے کسی طرح انکا خاندان بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ ان کے خاندان نے ایک ہسپتال کی بالائی منزل میں پناہ تو لے لی مگر انکے مکان کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ مکان میں موجود رخسار کی شادی کے لئے جمع کیا گیا سامان بھی لوٹ لیا گیا۔ جب متاثرہ خاندان نے رخسارکے سسرال کو صورتحال سے آگاہ کیا تو بجائے اس کے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں انکی مدد کو بڑھتے انہوں نے رشتہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

معجزات بھی شاید اس وقت ہوا کرتے ہیں جب کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی۔ یہی رخسار کے معاملے میں ہوا ۔ رخسار کے والد نے اپنے بھائی سے رخسار کو اپنی بہو بنالینے کی درخواست کی اور دو روز میں رخسار کی شادی اپنے کزن 23 سالہ فیروز سے ہوگئی۔ فیروز جو کہ ایک ڈلیوری بوائے کی نوکری کرتے ہیں اس رشتے پر مطمئین ہیں جبکہ رخسار کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے جہاں  رشتہ ہو رہا تھا وہ خاندان انہیں پسند نہیں تھا۔ انکا کہنا ہے کہ انہوں نے مصیبت کے وقت میں ہم سے جہیز اور دیگر لوازمات طلب کیئے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ لڑکی والوں کا سب کچھ لٹ چکا تو انہوں نے بارات لانے سے صاف انکار کر دیا۔

بے سروسامانی اور خوف کے سائے میں  رخسار کی شادی ایک چیلنج سے کم نہ تھی۔ مگر پھر سب ہوتا چلا گیا۔ ایک سنار نے دلہن کے لئے چاندی کے بچھوے بھیجے اور پیسے نہیں لیے۔شاہینہ نامی ایک خاتون نے اپنی ناک میں پہننے والی لونگ اتار کر رخسار کو دے دی۔ ایک خاتون لال رنگ کی چوڑیاں لے آئیں۔جہاں رخسار کا خاندان پناہ لیئے ہوئے تھا اس ہسپتال کو چلانے والے ڈاکٹر معراج انور نے ولیمہ کی ایک چھوٹی سی دعوت کا انتظام کیا۔ دلہن کے لیے لال رنگ کا لہنگا بھی خریدا گیا۔ ہسپتال کے قریب ہی پارلر چلانے والی شمع نام کی ایک لڑکی نے دلہن اور شادی میں شریک باقی لڑکیوں کا مفت میک اپ  کر دیا۔ یوں سب نے مل کر سوگ ، دکھ اور وحشت کے ماحول میں مسکراہٹیں اور خوشیاں بکھیرنے کا سامان کر ہی لیا۔

تاہم رخسار اور انکا خاندان اب تک اس خوف سے باہر نہیں آسکے جو فسادات کا شکار ہونے پر انکے دل و دماغ میں سرائیت کر چکا ہے۔ ان کے ہندو ہمسائے ان کی خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ اک روز واپس اپنے گھر جائیں گے۔