سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلنے سے صحافیوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے

بعض اوقات تو لوگ صحافیوں کو خبر کی تردید کرنے پر کم علمی کا طعنہ دیتے بھی نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ میڈیا اور صحافیوں پر اعتبار کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے میڈیا کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچتا ہے۔

سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلنے سے صحافیوں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے

پاکستان کے معروف نیوز چینل پر مارننگ شو کی میزبانی کرنے والے پاکستان کے پہلے سکھ اینکر ہرمیت سنگھ کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا حالانکہ اس نے معافی بھی مانگ لی تھی۔ سال 2018 میں پاکستانی نیوز چینل کو بطور اینکر جوائن کرنے والے پہلے سکھ اینکر ہرمیت سنگھ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک خبر پوسٹ کی کہ سابق وفاقی وزیر شازیہ عطا مری کے گھر پر ایف آئی اے کی ٹیم کے ریڈ کے نتیجے میں 97 کروڑ برآمد ہوئے ہیں۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی۔

ہرمیت سنگھ کے مطابق انہیں جب معلوم ہوا کہ خبر غلط ہے تو انہوں نے فوراً پوسٹ ڈیلیٹ کر دی تھی اور متاثرہ سیاسی رہنما سے معافی بھی مانگ لی تھی لیکن پھر بھی انہیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ انہیں بعدازاں مختلف سیاسی و صحافتی شخصیات کے کہنے پر دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔

ان دنوں سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی بھرمار ہے۔ جب کسی اکاؤنٹ سے ایک خبر شیئر کی جاتی ہے تو اسے تحقیق کیے بغیر لوگ آگے شیئر کرنے لگتے ہیں اور چند منٹ میں وہ انفارمیشن لاکھوں صارفین تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر وہ خبر بے بنیاد ہو تو جس شخصیت یا ادارے کے متعلق خبر ہو اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ہرمیت سنگھ کی جانب سے کچھ دیر بعد پوسٹ ڈیلیٹ کر دی گئی تھی لیکن اس دوران وہ پوسٹ اتنے لوگوں تک پہنچ چکی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئی حالانکہ حقیقت اس سے مختلف تھی۔

یوٹیوبر مشتاق کھرل کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی اس قدر بھرمار ہے کہ کسی انفارمیشن کو تصدیق کیے بغیر سچ ماننا محال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئے روز مختلف معروف شخصیات کی وفات کی افواہ اڑا دی جاتی ہے اور سوشل میڈیا صارفین اسے ثواب سمجھ کر شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی خبر کی تصدیق کرنا اکثر صارفین ضروری نہیں سمجھتے۔ مجبوراً اس شخصیت کو اپنی خیریت بارے تصدیقی ویڈیو پیغام جاری کرنا پڑتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے معروف سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی کی موت کی خبر متعدد بار سوشل میڈیا پر چل چکی ہے۔ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی وفات بارے بھی کئی بار خبر چل چکی ہے۔ گذشتہ روز بھی ایسی ہی ایک خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کی تردید عطاء اللہ کے بیٹے سانول عیسیٰ خیلوی نے سوشل میڈیا پر اپنے ویڈیو بیان کے ذریعے کی۔

مشتاق کھرل بتاتے ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ خود خبر کی تصدیق کر کے ویڈیو بنائی ہے۔ عام طور پر وہ لوگوں کے انٹرویوز کرتے ہیں اور ان کے متعلق تمام معلومات انہی سے کنفرم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر خبر کسی سورس سے آئی ہو تو محکمہ کے متعلق خبر محکمہ کے ذمہ دار افسر سے کنفرم کرتا ہوں اور شخصیت کے متعلق خبر سے بھی جب تک متعلقہ شخصیت کنفرم نہ کرے وہ ویڈیو میں شامل نہیں کرتے۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی غلط خبر دینے کا اتفاق نہیں ہوا۔

فری لانسر سوشل میڈیا مارکیٹنگ ایکسپرٹ شیخ حسن رضا کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر جب کوئی بھی خبر چلتی ہے تو اس کی تصدیق کے لیے مقامی لوگ اپنے جاننے والے صحافیوں سے رابطہ کرتے ہیں جس سے خبر کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق تو ہو جاتی ہے لیکن مقامی صحافیوں کو درجنوں کالز کی وجہ سے خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو لوگ صحافیوں کو خبر کی تردید کرنے پر کم علمی کا طعنہ دیتے بھی نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لوگ میڈیا اور صحافیوں پر اعتبار کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے میڈیا کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس بات میں دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا مارکیٹنگ میں چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن 100 فیصد ایسا نہیں ہے۔ ہمارے پاس 70 فیصد کلائنٹ ایسے آتے ہیں جو حقیقت پر مبنی معلومات کی بنا پر ہی مارکیٹنگ کراتے ہیں لیکن 30 فیصد لوگ واقعی ایسے ہیں جو مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ اس بات کو کاؤنٹر کرنے کے لیے کسی مہارت کی مارکیٹنگ سے پہلے متعلقہ سرٹیفکیٹ چیک کر لیتے ہیں لیکن مہارت کی جانچ کے لیے سرٹیفکیٹ بہرحال کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے اور نا ہی مہارت کو کسی صورت ماپا جا سکتا ہے۔ بڑھا چڑھا کر مارکیٹنگ کرنے کا نقصان ہمیں اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ وہ مارکیٹنگ براہ راست ہمارے متعلقہ نہیں ہوتی۔ ہم یا تو کسی کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہینڈل کر رہے ہوتے ہیں یا ان کے لیے کانٹینٹ رائیٹنگ، گرافک ڈیزائننگ یا دیگر سروسز دے رہے ہوتے ہیں جن کا براہ راست تعلق اکاؤنٹ ہولڈر سے ہوتا ہے۔ دوسری جانب مارکیٹنگ میں چیزیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنا کسی صورت بھی اخلاقی و صحافتی اصولوں کے مطابق نہیں ہے لیکن چونکہ اس کی مکمل ذمہ داری کلائنٹ پر ہوتی ہے اس لیے ہم اسے پوسٹ کر دیتے ہیں۔

پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے جوائنٹ سیکرٹری شہباز حمید چوہدری کا کہنا ہے کہ آن لائن سوشل نیٹ ورکس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور لاکھوں صارفین کے لیے مختلف قسم کی قومی اور مقامی خبروں کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ تاہم یہ دو دھاری تلوار کی مانند ہیں۔ اگرچہ ان کے بہت سے فوائد ہیں، جیسے لامحدود اور آسان مواصلات، فوری خبریں اور معلومات، تاہم ان کے بہت سے نقصانات اور مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ فیک خبروں کی شناخت اب بھی ایک پیچیدہ حل طلب مسئلہ ہے۔ مزید براں، سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کا پتہ لگانا موجودہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دوسری جانب مصنوعی ذہانت کی تکنیک بھی مسئلے کے حل میں تاحال ناکام ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا کانٹینٹ ایسا بنایا جاتا ہے کہ وہ حقیقت کے قریب ترین محسوس ہو اور تھرڈ پارٹی کی جانب سے اضافی معلومات ملنے تک اس کی شناخت ناممکن ہوتی ہے۔ اس کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم فیک نیوز سرچ بارے جامع اور منظم ریویو کے ذریعے اسے اپ ڈیٹ کریں گے۔

سوشل میڈیا انفلوئنسر ریحانہ راٹھور کا کہنا ہے کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ نے جہاں ہمیں بہت سی سہولیات مہیا کی ہیں وہاں بہت سے مسائل بھی کھڑے کر دیے ہیں۔ ان میں ایک بہت بڑا مسئلہ فیک خبریں پھیلانا ہے۔ فیک خبر سے کسی کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے، یہ بات فیک خبر پھیلانے والے سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں یہاں مثال کے طور پہ دو فیک خبروں کا ذکر کروں گی جن کا تعلق عزت اور جان سے ہو گا۔ فرض کیا کہ کسی جگہ کسی کا معمولی ایکسیڈنٹ ہوا ہو اور آپ فیک خبر لگا دیں کہ بندہ فوت ہو گیا ہے۔ پھر یہ خبر کاپی پیسٹ ہوتی جائے گی۔ اس انسان سے جڑے کتنے لوگوں کتنے پیاروں پہ یہ خبر قیامت بن کے ٹوٹے گی۔ کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو پہلے ہی دل کا مریض ہوتا ہے یا کسی کا دل کمزور ہوتا ہے۔ کوئی زیادہ حساس ہوتا ہے، اسے ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے۔ اب مذکورہ بندہ تو زندہ ہوتا ہے مگر دوسرا خبر سنتے ہی مر سکتا ہے اور ایسا ہوا بھی ہے۔

دوسری چیز یہ کہ فرض کیا کوئی بچی کالج یا یونیورسٹی پڑھنے جاتی ہے یا سفر پہ جاتی ہے اور اچانک اس کو کوئی مسئلہ درپیش ہو جاتا ہے، موبائل چھن سکتا ہے، گم ہو سکتا ہے، گھر والوں سے رابطہ نہیں ہو رہا ہوتا تو گھر والے پریشانی میں خبر لگوا دیتے ہیں کہ بچی نہیں مل رہی، رابطہ نہیں ہو رہا۔ اکثر لوگ خود سے ہی قیاس آرائیاں شروع کر دیتے ہیں کہ کسی سے چکر ہو گا، کسی کے ساتھ چلی گئی ہو گی۔ اب وہ اس خبر کو اپنے طریقے سے لکھتے ہیں کہ فلاں فلاں لڑکی اس وقت سے گھر والوں کے رابطے میں نہیں ہے۔ اب دوسرے کمنٹ کرتے ہیں کہ خود کہیں چلی گئی ہو گی۔ پھر اگلا بندہ پوسٹ کرتا ہے کہ فلاں کی بیٹی فلاں کی بہن غائب ہو گئی ہے۔ پھر وہ خبر کاپی پیسٹ ہوتے ہزاروں والز پہ آ جاتی ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ لڑکی مل جاتی ہے، اس کے ساتھ کئی مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ گھروالے خبر دیتے ہیں موبائل گم ہو گیا تھا یا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ بچی خیریت سے مل گئی ہے۔ مگر جب تک میڈیا اس بچی کو اچھی طرح بدنام کر چکا ہوتا ہے۔ کچھ ہی ایسے لوگ ہوتے ہوں گے جو پرانی خبر کی تردید کرتے ہیں۔ اکثر تو یہ زحمت بھی نہیں کرتے۔ یاد رکھیں برائی جتنی جلدی پھیلتی ہے، اچھائی نہیں پھیلتی۔ تردید اتنے لوگوں تک نہیں پہنچتی جتنے لوگوں تک بدنامی پہنچ چکی ہوتی ہے اور ضروری نہیں کہ جنہوں نے پہلی خبر سنی ہو وہ دوسری بھی پڑھ یا سن سکیں۔

لہٰذا کوئی بھی فیک خبر پھیلانے سے پہلے اچھی طرح تصدیق ضروری ہے کہیں آپ کا جھوٹ کسی کی جان تو نہیں لے گا، کسی کی عزت تو برباد نہیں کرے گا۔ اس جہاں بھی مکافات عمل ہوتا ہے، ہم کسی کو رسوا کرتے ہیں تو وہ رسوائی ہماری طرف لوٹ کے ضرور آتی ہے۔ میڈیا کو تعمیراتی کاموں کے لیے استعمال کریں نا کہ منفی اثرات پھیلائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ خبر کی تصدیق کے لیے سب سے پہلے تو اس بات کو دیکھتے ہیں کہ جس پوسٹ کو بے دریغ شیئر کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ کسی ذمہ دار محکمہ کے افسر کا بیان ہے یا پھر متاثرہ خاتون یا مرد کا بیان ہو جیسے موٹروے پر خاتون کے ریپ بارے اس نے خود بتایا، تو اس کو شیئر کیا جاتا ہے۔ فوری طور پر شیئر کر کے جھوٹ پھیلانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات خبر کنفرم ہونے میں 3 دن بھی لگ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس جو کسی ذمہ دار شخص یا ادارے کے مصدقہ (ویریفائیڈ) اکاؤنٹ ہوں ان پر موجود معلومات کی تصدیق کے بعد شیئر کیا جاتا ہے جبکہ نامعلوم لوگوں کے اکاؤنٹس سے کی گئی پوسٹ شیئر نہیں کی جاتی۔ یہی سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے سے روکنے کی بھی ٹپس ہیں۔ وہ بتاتی ہیں چونکہ وہ خود کسی سے بات کریں تو اس بارے پوسٹ لکھتی اور شیئر کرتی ہیں یا ان کی اپنی شاعری اور واقعہ ہوتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں کم اور احتیاط سے پوسٹ شیئر کرتی ہیں۔

ڈیجیٹل میڈیا رپورٹر رانا نوروز اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بطور رپورٹر ہمیں فیک نیوز سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ بعض اوقات ایسی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں جہاں باقاعدہ طور پر خبر کی تصدیق نہیں کر سکتے اور خبر بھی ایسے سورس کی جانب سے آتی ہے کہ یقین کرنا مجبوری بن جاتی ہے۔

یہ بنیادی صحافتی ذمہ داری ہے کہ خبر کی جامع تصدیق کی جائے لیکن اس حوالے سے چھوٹے اضلاع میں خاص آگاہی نہیں ہے۔ سورس پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنا اپنی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے لیکن ماضی میں یہ عملی طور پر اسے فالو نہیں کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے ایک سورس کی اطلاع پر ایک دکاندار کے خلاف ناقص خشک دودھ فروخت کرنے کے حوالے سے خبر سوشل میڈیا پر لگا دی گئی۔ اگلے ہی روز تاجر یونین کی جانب سے متعلقہ پولیس سٹیشن میں میرے خلاف درخواست مقدمہ دائر کر دی گئی تھی جس پر سینیئر صحافی رہنماؤں کی مدد سے زبانی معافی سے بچاؤ ممکن ہوا۔ تب سے خبر کی تصدیق کیے بغیر شائع نہیں کرتا۔

ایسے میں اگر فیک ہونے کی وجہ سے خبر باؤنس ہو جائے تو اچھی خاصی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بہت سے ساتھی صحافیوں کو اسی بنیاد پر ادارہ سے فارغ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

وہ بتاتے ہیں چند ہفتے قبل جب بجلی کی قیمتوں میں اچانک بے تحاشہ اضافہ ہو گیا تھا تو ادارہ کی جانب سے اسائنمنٹ دی گئی کہ وہاڑی کے فلاں بلاک میں ایک شخص نے خودکشی کر لی ہے اور وہ خبر بڑی فالوونگ والے ویریفائیڈ اکاؤنٹس سے بھی شیئر ہو چکی تھی۔ اگلے روز متعلقہ علاقہ میں گیا اور گھر ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ کئی گھنٹے کی تلاش کے بعد معلوم ہوا کہ اس نام کا کوئی شخص یہاں نہیں رہتا اور نہ اس بلاک میں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے۔ تب ادارہ کو اطلاع دی کہ فیک نیوز ہے، یہاں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ فیکٹ چیک بارے انہیں سرے سے معلوم ہی نہیں۔

اسلام آپ تک پہنچنے والی کسی بھی خبر کی تصدیق کرنے اور تصدیق کیے بغیر اسے نہ پھیلانے کی سختی سے تاکید کرتا ہے۔ اس کا تذکرہ ایک حدیث میں ہے جس کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی خبر سنے اور اسے (بغیر تصدیق کیے) پھیلائے۔

نجی بینک کے آپریشن مینجر شکیل احمد (فرضی نام) نے بتایا کہ بینک کی جانب سے انشورنس پالیسی کا انہیں ٹارگٹ دیا جاتا ہے، اس حوالے سے وہ لوگوں کو مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں اور مکمل طور پر مطمئن ہونے پر ان کی پالیسی کی جاتی ہے۔ پالیسی کی واپسی کا بھی مکمل نظام موجود ہے۔ اسی حوالے سے وہاڑی کے رہائشی ایک شخص نے پالیسی رجسٹر کرانے کے 3 ہفتے بعد واپسی کا مطالبہ کر دیا جس پر قواعد کے مطابق عمل کیا گیا لیکن ڈاکومنٹس کے کچھ مسائل کی وجہ سے رقم واپسی میں تاخیر ہو گئی جس پر ان کا ذاتی یا عہدہ کی حیثیت سے قصور نہ تھا۔ اس کے جواب میں مذکورہ شخص کے ایک رشتہ دار کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کی تصویر اور بینک کا نام لکھ کر فراڈ سمیت متعدد غیر اخلاقی پوسٹیں شیئر کی گئیں جس سے ان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ سوشل میڈیا پر پوسٹ لگانے والے صحافی شیخ بلال نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا ذاتی مسئلہ ہے، ہم اس میں کسی کو کچھ بتانے کے پابند نہیں ہیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ پوسٹ لگانے والا ہم سے رابطہ کر کے تفصیل طلب کر لیتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس معاملے میں وہ جلد ہی ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کریں گے۔