'جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس عظمت سعید سے ہاتھ نہ ملایا'

'جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس عظمت سعید سے ہاتھ نہ ملایا'
ویب سائٹ پاکستان 24 کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر بار ایسوسی کی جانب سے ان کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی شرکت کی ہے اور وہ حاضرین کی توجہ کے مرکز رہے۔

سپریم کورٹ کے ہال میں جسٹس عظمت سعید شیخ کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر بار کی جانب سے ڈنر میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان اٹارنی جنرل اور سینئیر وکلا نے تقریب میں شرکت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی تقریب میں شریک ہوئے اور حاضرین کی خصوصی توجہ کا مرکز رہے۔

فل کورٹ ریفرنس کے بعد عدالت کے سرمونیل ہال میں تمام ججز اور سینئر وکلا اکھٹے ہوئے۔ وکیلوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو گھیرے رکھا اور ان سے گپ شپ کرتے، تصاویر کھنچوانے کی درخواستیں کرتے رہے۔

اس موقع پر دیکھا گیا کہ چیف جسٹس آصف کھوسہ انتہائی مختصر وقت کے لیے چائے پر سرمونیل ہال میں رکے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہال میں موجود جسٹس عظمت سعید سے ہاتھ نہ ملایا۔

جسٹس عظمت سعید بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے دوری اختیار کیے رہے۔ ایک موقع پر جسٹس قاضی فائز سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے بلانے پر ان کے پاس گئے تاہم وہاں پہلے سے موجود اٹارنی جنرل انور منصور خان اور جسٹس قاضی فائز نے ہاتھ نہ ملائے۔ جسٹس قاضی فائز اور اشتر اوصاف نے گفتگو کی لیکن اٹارنی جنرل انور منصور کھڑے رہے۔

خیال رہے کہ صدارتی ریفرنس کے دائر کیے جانے کے بعد ایک ضمنی جواب میں اٹارنی جنرل انور منصور نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں تحریری طور پر انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے اور سرکاری مؤقف میں جسٹس قاضی فائز کے رویے اور ان کی ذہنی اپروچ پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے ان کو شہرت کا بھوکا کہا۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف صدارتی ریفرنس سننے والے دیگر ججز میں جسٹس گلزار احمد بھی شامل ہیں جو جسٹس آصف کھوسہ کے قریب رہے۔ وہ جسٹس کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بنیں گے۔

یہ خبر ویب سائٹ پاکستان 24 پر بروز منگل, اگست 27 2019 شائع ہوئی

دوسری جانب جسٹس شیخ عظمت سعید کے اعزاز میں دیے گئے الوداعی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے کہا کہ جسٹس عظمت شیخ کے چند فیصلوں پر وکلا کو تحفظات ہیں، سیاسی مداخلت افواج پاکستان کی ساکھ متاثر کرتی ہے، جسٹس عیسی اور کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کی ترجیحی سماعت غلط ہے، ملک میں گھٹن ہے، کیا عدلیہ، پارلیمنٹ اور میڈیا آزاد ہیں؟

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے 16 ججز کے سامنے جو تقریر کی اس کا متن پاکستان کے سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے اپنی ٹویٹ میں شئیر کیا ہے۔

https://twitter.com/Matiullahjan919/status/1166245318205333504?s=20

سید امجد شاہ نے اپنی تقریر کے ابتدا میں شرکا محفل کو سلام پیش کیا اور کہا کہ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے اس تقریب میں خطاب کرنے کا موقع ملا، بعد ازاں انہوں نے اس موقع کا خوب فائدہ اٹھایا۔

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے جسٹس عظمت سعید کے پیشہ ورانہ سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس عظمت سعید نے 1974 میں سرسید کالج سے گریجویشن کیا، 1978 میں پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسی سال راولپنڈی سے انہوں نے عملی وکالت کا آغاز کیا۔

جسٹس عظمت سعید 1980 میں لاہور ہائی کورٹ اور اگلے برس ہی سپریم کورٹ کے وکیل بنے، یکم دسمبر 2004 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جبکہ اگلے ہی سال یکم جون 2005 کو جج مقرر ہوئے۔

یکم جون 2012 کو انہیں ترقی دیتے ہوئے سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ اس سے قبل جسٹس عظمت سعید 1997 میں احتساب بیورو کے اسپیشل پروسیکیوٹر، 2000 میں نیب کے ڈپٹی پروسیکیوٹر جنرل جبکہ 2001 میں اسپیشل پروسیکیوٹر رہے۔

امجد شاہ نے جسٹس عظمت سعید کی تعریف میں کہا کہ ان کو قانونی نکات پر غیر معمولی گرفت اور مہارت حاصل ہے، جہاں جسٹس عظمت سعید کی تعریف ہوئی تو وہیں امجد شاہ نے یہ بھی کہا کہ وکلا کو ان کے چند فیصلوں پر جائز تحفظات بھی ہیں۔

اس کے بعد انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے دیوانی اور فوجداری مقدمات کے بڑی تعداد میں فیصلہ جات قابل تعریف اقدام ہے لیکن عام لوگوں کے مقدمات جو عرصہ دراز تک عام عدالتوں میں زیر التوا رہتے ہیں، وہاں بھی جلد فیصلے کرنے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کی ذمہ داری سپریم کورٹ کی ہے۔

امجد شاہ نے ملکی حالات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہر طرف انتہائی گھٹن ہے، حکومت اور اداروں کی طرف سے ہر طرح کی اختلافی آواز کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا مختلف اداروں کو آئین میں ان کے طے شدہ اختیارات سے تجاوز کر کے دوسرے اداروں کے اختیارات اور کام میں مداخلت کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ اور کیا سپریم کورٹ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ یہ ایک اہم اور بڑا سوال ہے کہ آیا عدالتیں اور پارلیمان آئین میں دیے گئے اختیارات کے مطابق آزادی سے اپنا کام کر رہے ہیں؟

وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے مزید کہا کہ وکلا برادری پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے لیکن سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات ادارہ کی ساکھ اور غیر جانبداری کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان ان حالات میں اس کا بلکل متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہر ادارے کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا پابند بنائے۔

امجد شاہ نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہر قسم کی اختلافی آواز کو دبایا جا رہا ہے، لوگوں کو اس بنیادی حق سے محروم کرنے کے لیے جھوٹے مقدمات میں الجھایا جا رہا ہے۔ لوگوں کے اس بنیادی آئینی حق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کو اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بار کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنسز کی اپنی باری سے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے سماعت پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ لہذا ہم توقع کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس میں دائر کردہ آئینی درخواستوں کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان، ماسوائے ان کے جو اس تنازع کا حصہ ہیں پر مشتمل بنچ بنائے جو ان کی سماعت کرے۔

آخر میں سید امجد شاہ نے جسٹس عظمت سعید کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔