نادرا کے چیئرمین طارق ملک نے کہا ہے کہ نادرا کے پاس جیو فینسنگ اور ڈی این اے ٹیسٹنگ سے متعلق کوئی مینڈیٹ نہیں ہے کیونکہ یہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جرم سے متعلق فرانزک ٹیسٹ نادرا کا اختیار نہیں ہیں۔ وہ صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اسد علی طور پر حملوں سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
اسد طور پر حملہ کرنے والوں کے شناختی شواہد کمزور
چیئرمین نادرا نے کہا کہ اسد طور پر حملہ کرنے والے مجرمان کی شناخت کے شواہد کمزور ہیں، ' فرانزک شواہد کا معیار، جیسے مختلف جگہوں پر فنگر پرنٹس اور فوٹیج، نادرا کے نظام میں مشتبہ افراد کے چہروں کی شناخت کے لیے مناسب نہیں تھے۔
وہ ایس ایس پی (آپریشنز) اسلام آباد ڈاکٹر سید مصطفٰی تنویر کے بیان کا جواب دے رہے تھے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین اور سینئر صحافی ابصار عالم اور اسد طور پر حملے سے متعلق رپورٹ کو جیو فینسنگ ، ڈی این اے میچنگ ، فرانزک رپورٹ وغیرہ کے لیے نادرا بھیج دیا گیا ہے۔چیئرمین نادرا نے یہ بھی کہا کہ اسد طور کا محکمہ پولیس سے ریکارڈ کلیئر نہیں کیا گیا۔ قومی اسمبلی کی کمیٹی کے چیئرمین پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میاں جاوید لطیف نے وزارت داخلہ کے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل، انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس، نادرا چیئرمین اور پی ایف ایس اے حکام سے بات کریں اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں رپورٹ جمع کرائیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ تمام صوبوں اور اسلام آباد کے صحافیوں کے خلاف درج ایف آئی آر اور شکایات کی تفصیلات اکٹھی کی جائیں اور انہیں اپنے اگلے اجلاس میں فراہم کی جائیں۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سندھ پولیس (اسپیشل برانچ) نے قومی اسمبلی کمیٹی کو صحافی عزیز میمن کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تازہ ترین رپورٹ سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایڈیشنل آئی جی پی ، کراچی ریجن کے تحت جے آئی ٹی سندھ کے محکمہ داخلہ نے تشکیل دی تھی۔رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ 88 مشتبہ افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے، ایک ملزم نذیر ولد بنگل خان ساہیتو کا ڈی این اے مقتول صحافی سے مل گیا ہے۔
پاکستان میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملے
دس سال قبل سلیم شہزاد کا قتل ہو یا سنہ 2021 میں اسد طور پر ہونے والا تشدد، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن میں صحافیوں کو اغوا، تشدد یا موت کا سامنا کرنا پڑا۔ایک طرف صحافی برادری میں کئی لوگ الزام لگاتے ہیں کہ ریاستی ادارے خود ہی ان واقعات میں ملوث ہیں تو وہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بےبس نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں جو ان واقعات کو محض ڈرامہ بازی قرار دے کر صحافیوں پر ہونے والے تشدد کی خبروں کو خودساختہ سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ میں اسلام آباد کو صحافیوں کے لیے ملک کا سب سے خطرناک شہر قرار دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اُس سال پورے ملک میں صحافیوں پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں سے ایک تہائی سے زیادہ وفاقی دارالحکومت میں پیش آئے۔ حال ہی میں جرائم کا شکار رہنے والے صحافیوں میں ابصار عالم، اسد طور، مطیع اللہ جان شامل ہیں۔ اس سے قبل احمد نورانی، عمر چیمہ اور حامد میر بھی تشدد کا شکار ہوئے۔ اس کے لیئے مقامی صحافی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔