مشعل جلانے والی

مشعل جلانے والی
2016 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 24 ملین بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہیں۔ مختلف سیکٹرز میں کام ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں پانچ سے 15 برس کے بچے آج بھی سکول میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

کراچی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں بچے سڑکوں اور شاہراہوں پر بھیگ مانگتے نظر آتے ہیں۔ کراچی میں child labour عام ہے۔ یہاں گھر میں کام کرنے والے helpers سے لے کر چھوٹے چھوٹے ڈھابوں پر بیشمار کمسن بچے کام کرتے ہیں۔



ان حقائق کے باوجود کراچی میں ہی کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان بچوں کو تعلیم سے روشناس کروانے کے لئے ہر لمحہ کوشاں ہیں۔

ایسی ہی ایک شخصیت ہے جس نے گرلز ایجوکیشن پر اپنی خدمات پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

بسمہ عزیز کراچی سٹیل ٹاؤن کی رہائشی ہیں۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے بی بی اے میں ڈگری لی۔ بسمہ سیکھنے اور سیکھانے کا جنون کی حد تک شوق رکھتی ہیں۔ شروع میں انہوں نے فراغت کے سبب اور اپنے شوق کے پیش نظر ایک سکول میں ٹیچنگ کا فیصلہ کیا۔

ابھی انہیں ٹیچنگ کرتے کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ سکول کی پرنسپل نے انہیں بتایا کہ وہ سکول کو بند کر کے کینیڈا شفٹ ہو رہی ہیں۔ بسمہ جو تعلیم کو ہر انسان کا بنیادی حق سمجھتی ہیں، نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سکول کو بند نہیں ہونے دیں گی۔



بسمہ نے اس بارے میں پرنسپل سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ سکول کی بلڈنگ کرائے کی ہے، اگر بسمہ کرایہ دیتی رہیں تو اس بلڈنگ میں سکول قائم رہ سکتا ہے۔

بسمہ کے گھر والوں نے اس اقدام کی بہت تعریف کی اور اپنے اعتماد اور ساتھ کا یقین دلایا۔

بسمہ نے  مارچ 2015 میں شاہ ٹاؤن میں Beacon of Hope School کی بنیاد رکھ دی۔

بسمہ نے علاقے کے لوگوں کو بتایا کہ سکول کی کوئی فیس نہیں ہوگی اور کتب بھی بسمہ خود ہی فراہم کریں گی۔ اس کے باوجود کسی نے سکول کی راہ نہ لی۔ بسمہ نے آس پاس کے لوگوں سے معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ لوگ اپنی بیٹیوں کو ایسے سکول میں پڑھنے نہیں بھیجیں گے جہاں لڑکا، لڑکی دونوں تعلیم حاصل کریں۔

بسمہ نے فیصلہ کیا کہ Beacon of Hope کو Beacon of Hope Girls School  بنا دیا جائے۔



اس کے بعد بھی سفر آسان نہ تھا۔ بسمہ خود محلے کی ایسی بچیوں کے گھر جاتیں۔ ان کے والدین سے مل کر انہیں تعلیم کی اہمیت بتاتیں۔ انہیں یقین دہانی کرواتیں کہ بچیاں اچھے ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں گی۔

بسمہ کو آج بھی یاد ہے کہ تین سال پہلے جب یہ سکول شروع کیا تو کچھ عرصے بعد کچھ لوگوں نے آ کر سکول پر دھاوا بول دیا اور سکول کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے۔ سکول کے بورڈ اور مین گیٹ کو بھی نقصان پہنچایا۔ بسمہ کو ہراساں بھی کیا گیا۔

بسمہ کا قصور فقط یہ تھا کہ وہ خواتین کی تعلیم حاصل کرنے کی راہ ہموار کرنا چاہتی تھیں۔

لیکن بسمہ پیچھے نہ ہٹیں۔ آج بیکن آف ہوپ گرلز سکول میں 200 سے زائد بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

بسمہ مطمئن ہیں کہ بچوں کو اچھے ماحول سے لے کر، یونیفارم اور کتب تک فراہم کی جاتی ہیں۔

بسمہ جیسے کئی نوجوان ہیں جو خود بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور معاشرے میں موجود تعلیم سے محروم افراد کو علم کی راہ پر چلانے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔

ایسے نوجوان پاکستان کا روشن مستقبل ہیں اور بھر پور حوصلہ افزائی ان کا حق ہے۔

مصنفہ کا تعلق کراچی سے ہے۔ ابلاغِ عامہ میں گریجویٹ ہیں، ادب سے شغف ہے، کتابوں پر تبصروں کے ساتھ ساتھ سماجی معاملات پر لکھتی ہیں۔ آمنہ آرٹ، فن، ثقافت اور رقص میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔