2 کروڑ کا پلاٹ اور سابق بیورو کریٹ کی ناراضگی: ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

لاہور پریس کلب کے ایک کمرے سے غصے میں کسی کے چلانے کا شور سن کر قریب ہی ہال میں موجود کئی ممبران اس طرف دوڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہر وقت ہنسی مذاق کرنے والا ایک سینئر ممبر سخت مشتعل ہے، اور اپنے سامنے نظریں جھکائے اور ہاتھ باندھ کر کھڑے اعلیٰ سرکاری افسر کو بے نقط سنا رہا اور شدید غصے میں گالیاں دیے جا رہا ہے۔

یہ سینئر ممبر رفیق میر تھے، المعروف چاچا رفیق میر۔ نامور ترقی پسند رائٹر صفدر میر کے بھتیجے، اور سامنے کھڑا افسر ان کے غیض و غضب کا ہدف تھا۔ ڈی جی پی آر پنجاب اکرم شہیدی۔ اکرم شہیدی پیپلزپارٹی کی گذشتہ حکومت میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہے، اور آج کل بلاول ہاؤس میں سابق صدر پاکستان آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے ذاتی میڈیا امور کے انچارج اور پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل کے سربراہ ہیں۔ وہ پی پی پی پنجاب کی ایک سابق صدر فائزہ ملک کے شوہر کے بھائی بھی ہیں۔

پتہ چلا کہ موصوف نے انہیں کمرے میں اکیلا پا کر انہیں پنجاب حکومت کی طرف سے ایک عدد رہائشی پلاٹ قبول کرنے کی درخواست کی تھی کہ چاچا بھڑک اٹھے۔ غصے میں اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور DGPR پنجاب پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ چاچا بار بار کہہ رہے تھے، تمہیں مجھے پلاٹ آفر کرنے کی جرات کیسے ہوئی؟

چاچا رفیق میر لاہور میں ان چند بیوقوفوں کے امام تھے جو اپنے آدرشوں کے سبب سرکار سے پلاٹ جیسی رشوت کو گالی سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ میری ان سے ملاقات نیوز ایجنسی پی پی آئی میں ہوئی تھی، جہاں سے میں نے 1987 میں اپنے رپورٹنگ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ میں نے ان سے زیادہ قابل انگریزی کا سب ایڈیٹر نہیں دیکھا، حالانکہ وہ حنیف رامے کی زیر ادارت شروع ہونے والے روزنامہ مساوات میں رہے تھے، جس کے بند ہو جانے کے بعد پی پی آئی میں چلے گئے تھے۔

دوسری طرف میرے درجن بھر سابق کولیگ حضرات جو برسوں پہلے نہ صرف صحافت کا پیشہ ہی چھوڑ چکے ہیں بلکہ یہ شہر کیا، ملک تک چھوڑ گئے ہیں۔ اپنی فیملیز کے ساتھ سات سمندر پار جا چکے ہیں، اور ٹورانٹو، مانٹریال سمیت کینیڈا کے مختلف شہروں اور امریکہ و یورپ میں سیکیورٹی گارڈ لگے ہوئے ہیں یا مزدوری کر رہے ہیں۔ لاہور کی صحافی کالونی میں اپنا حصہ وصول کرنے یعنی پلاٹ لینے کی غرض سے کئی ماہ کی چھٹی لے کر لاہور آتے رہے ہیں۔

شمشاد احمد خان پاکستان کے ان معتبر seasoned سفارت کاروں میں شامل ہیں جو آغا شاہی اور صاحبزادہ یعقوب علی خاں کے بعد ہمارے دفتر خارجہ کی زینت بنے۔ آج کل لاہور میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، ایک روز قبل انہیں مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کی ہفتہ وار فکری نشست میں مہمان مقرر کے طور پر بلایا گیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے 14 اگست 1947 کو جو پاکستان بنایا تھا، آج تک اسی کو ڈھونڈ رہا ہوں البتہ حاضرین نے جب فارن سروس کیریئر کے حوالے سے کچھ یادیں شیئر کیں تو شمشاد احمد خان نے ریٹائرمنٹ کے بعد پیش آنے والا ایک نہایت دلچسپ واقعہ سنایا۔

شمشاد احمد خان نے کہا مجھے ایک فون آیا، فون کرنے والے نے کہا سر اسلام آباد میں آپ کا ایک پلاٹ ہے، اسی سلسلے میں آپ کو فون کیا ہے۔ میں کئی بار آپ سے رابطے کی کوشش کر چکا ہوں مگر آپ سے بات نہیں ہو سکی۔ میں نے کہا بھائی میرا تو کوئی پلاٹ نہیں ہے جس پر اس نے کہا نہیں سر، آپ کا ایک پلاٹ ہے۔ جب میں نے اسے دوٹوک کہا بھائی میرا اسلام آباد میں کوئی پلاٹ نہیں ہے تو اس نے اصرار کرتے ہوئے کہا سر آپ ایک بار مجھے ملاقات کا موقع دیں، میں آپ کو تفصیل سے بتاؤں گا۔

شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ میں نے اسے ملاقات کا وقت دے دیا، اس نے آ کر مجھے ایک فارم تھماتے ہوئے کہا بس، آپ اس پر دستخط کر دیں۔ وہ میرے سابق ڈیپارٹمنٹ کا ایک افسر تھا، جب میں نے اسے کہا بھائی مجھے کسی پلاٹ کی ضرورت نہیں، میرے پاس رہنے کے لئے پہلے ہی گھر موجود ہے۔ تو اس نے کہا سر، اس کا بھی میں بندوبست کر کے آیا ہوں۔ میں 10 لاکھ روپے ساتھ لے کر آیا ہوں، یہ بیعانہ ہے، آپ سمجھیں آپ کا پلاٹ بک گیا۔

شمشاد احمد خان نے بتایا کہ اس نے میرے اصرار پر تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ آپ کا پلاٹ 2 کروڑ کا ہے۔ اس میں اتنا شیئر منسٹر کا ہے، اتنا سیکرٹری صاحب کا ہے اور تھوڑا سا حصہ مجھے بھی مل جائے گا۔ بس آپ اس فارم پر سائن کر دیں۔ شمشاد احمد خان کہتے ہیں مجھ سے اپنے غصے پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا، میں نے اسے کہا، میں نے آپ کو ملاقات کی اجازت دے کر آپ کو بہت عزت دے لی، بہتر یہی ہے کہ آپ اسی وقت یہاں سے چلے جائیں، میں نے سخت ناراضگی کے ساتھ اسے کہا، بس آپ میرے گھر سے نکل جائیں۔

شمشاد احمد خان نے دکھ بھرے لہجے میں کہا مجھے تو ریٹائر ہوئے بھی 12، 14 سال ہو چکے تھے مگر  مال بنانے والے ابھی تک ریاست کی زمین میں سے میرے حصے کا کوئی پلاٹ ڈھونڈ لائے تھے۔ قائداعظم نے 14 اگست 1947 کو جو پاکستان بنایا تھا، میں آج تک اسی کو ڈھونڈ رہا ہوں۔

اتفاق سے مولانا ظفر علی خاں ٹرسٹ کے ایک ٹرسٹی اور سرگرم ترین شخصیت مجیب الرحمن شامی سے اس روز موجود نہیں تھے، ورنہ مہمان شخصیت کا یہ واقعہ سن کر بہت مایوس ہوتے اور شرمسار بھی۔ شاید۔