وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ لوگوں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ محمد علی جناح جب پاکستان بنا رہے تھے تو انہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ چاہتے کیا ہیں یہ کنفیوژن اس وجہ سے ہے کہ ریاست پاکستان میں بھی یہ ابہام موجود ہے کہ قائد اعظم کس طرح کا پاکستان چاہتے تھے تاہم یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے۔
اسلام آباد میں قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویری نمائش کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو درپیش اصل چیلنج معاشی یا بیرونی نہیں بلکہ اصل چیلنج ہے کہ ہمیں قائد اعظم کے پاکستان کو واپس کیسے لینا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ بات انہوں نے اپنی تین بڑی تقاریر میں ظاہر کی تھی، پہلی تقریر انہوں نے 11 اگست 1947 کو کی تھی جو اسمبلی سے کی، دوسری تقریر فوج جبکہ تیسری تقریر انہوں نے عوام سے کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ قائد اعظم کی تقاریر نئے پاکستان کو سمجھنے کی بنیاد ہیں، عمران خان قائد اعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ قائد اعظم کوئی مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے لیڈران نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ انہیں اندازہ تھا کہ جب یہاں جمہوریت آئی گی تو ہندو اکثریت، اقلیتوں کا جینا دوبھر کردے گی۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ بھارت میں نریندر مودی اور بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ دنیا کے سامنے ہے، مسلمانوں پر جو ظلم ڈھایا جارہا ہے وہ تو معمول بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ کے واقعے پر پورا پاکستان اکٹھا ہوگیا اور سب نے اس واقعے کی مذمت کی لیکن بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اس پر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وقت کے سیاسی قائدین کو داد دینی چاہیے جنہوں نے اتنے سال قبل حالات کو جانچ لیا کہ ظالم اکثریت مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی، انہوں نے ایک قومی ریاست تشکیل دی جیسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اس ریاست کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان کسی اکثریت کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنیں اور اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کے دائیں اور بائیں طرف دو انتہا پسند ریاستیں ہیں، ایک طرف افغانستان ہے جہاں طالبان آگئے ہیں اور دوسری طرف بھارت کی ہندوانتہاپسندانہ سوچ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے عوام کی پوری مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ عورتیں اکیلے سفر نہیں کر سکتیں، اسکول کالج نہیں جا سکتیں تو اس طرح کی رجعت پسندانہ سوچ پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اسی طرح بھارت میں ایک ہندو انتہا پسندانہ سوچ کھڑی ہو رہی ہے لہٰذا ریاست پاکستان کو سب سے بڑی لڑائی اس متشدد اور انتہا پسندانہ سوچ سے لڑنی ہے۔
انہوں نے خطے میں پاکستان کو امید کی کرن قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان وہ روشن امید ہے جو ان انتہاؤں کے درمیان رہ کر ان انتہاؤں سے باہر آ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم نے 10 اگست 1947 کو کہا تھا کہ جو عہدوں کے حوالے سے جو مذہب کی ترجیح ہے نکال دی جائے تاکہ جو مسلمان نہیں ہیں وہ بھی عہدے پر حلف لے سکیں اور 11 اگست 1947 کو انہوں نے اقلیتوں کے حقوق واضح کردیے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا ہوتا تو پاکستان کی تحریک مولانا ابوالکلام یا مولانا مودودی چلاتے، انہیں مذہبی علم پر عبور حاصل تھا لیکن انہوں نے پاکستان کی تحریک نہیں چلائی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ مذہب میں ریاست کی گنجائش نہیں ہے اور ریاست کی سرحد نہیں ہوسکتی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال نے سیاسی تحریک چلائی اور اسلام کو سیاسی طور پر بڑھایا کہ ایک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں اسلام کو ماننے والے ایسی جگہ رہ سکیں جہاں کوئی ظالم اکثریت نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حفاظت کےلیے یہ لڑائی جیتنا بہت اہم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد کس طرح بھارت کی معیشت ہو یا خارجہ پالیسی تمام تنزلی کا شکار ہیں، کیونکہ وہاں پر مذہبی اکثریت کے نام پر انتہا پسندی پھیلائی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں قائد اعظم کے پیغام کو آگے لے کر جانا ہے، ان کا پیغام واضح ہے اور ہمیں اسے سمجھنا ہے اور اس جنگ کو لڑنا ہے۔