پاکستان نہ مذہبی ریاست ہے، نہ سیکولر؛ یہ ایک کنفیوزڈ ریاست ہے

پاکستان نہ مذہبی ریاست ہے، نہ سیکولر؛ یہ ایک کنفیوزڈ ریاست ہے
پاکستان ایک کنفیوز اور پیچیدہ ریاست ہے۔ پاکستان کے حالیہ بحران سمیت تمام مسائل کی وجوہات اتنی پیچیدہ ہیں کہ ان کا احاطہ ایک تحریر یا ایک نشست میں نہیں کیا جا سکتا۔

بقول قابل اجمیری؎

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ملک کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لئے آپ کو آزادی سے پہلے اور فوراً بعد کی سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی تاریخ سمیت بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ کو سمجھنا ہوگا کیونکہ ملک کے موجودہ تمام بحران ماضی میں کی گئی غلطیوں بلکہ گناہوں کی مرہون منت ہیں۔ آج ہم جو کاٹ رہے ہیں اسی تاریخ کا بویا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کا ہمارا لگایا ہوا پودا اب تن آور درخت بن چکا ہے کہ جس کی جڑوں کو اکھاڑنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

معروف جرمن فلاسفر ہیگل نے درست کہا تھا کہ

"We learn from the history that we learn nothing from the history"

'ہم نے تاریخ سے یہ سیکھا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ بھی نہیں سیکھا'

ہیگل نے یہ نقطہ شاید ہمارے لئے ہی بیان کیا ہے۔ افسوس کہ ہم آج بھی اپنی غلطیوں پر پشیماں ہو کر ان کی اصلاح کی بجائے انہیں مسلسل دہرا رہے ہیں۔

برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد وجود میں آنے والی پاکستان اور بھارت دونوں (نیو کلونیل) ریاستوں کے حکمرانوں کی صرف چمڑی بدلی یعنی گوروں کی جگہ گندمی چمڑی والے اقتدار پر براجمان ہو گئے مگر ان کا طرز حکمرانی ’سامراجی‘ ہی رہا۔ دونوں ریاستوں کی مذہبی اور سیاسی اشرافیہ نے اپنی رعایا کو مذہب کی بناء پر تقسیم کیا اور اسی تقسیم کی بنیاد پر ان پر حکومت کی۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں مذہبی فسطائیت نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں، اسی لئے نریندر مودی اور بی جے پی کی منتخب فسطائی حکومت مذہبی ریاست کی بھیانک شکل تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان میں جنرل ضیاءالحق جیسے آمر نے اپنے غیر آئینی اقتدار کو طوالت بخشنے کے لئے مذہب کارڈ استعمال کیا اور ان کی لگائی ہوئی آگ نے اس ہرے بھرے گلستاں کو دوزخ بنا کر رکھ دیا۔

جنرل ضیاالحق نے امریکہ کے حکم پر افغان جنگ میں اپنے لوگوں کو جہادی بنایا، پھر امریکہ ہی کے کہنے پر انہیں طالبان بنا دیا گیا، پھر طالبان سے اپنے ہی لوگوں کے سر کٹوائے اور اب ماضی قریب میں ریاست نے انہی غلطیوں کو دہراتے ہوئے تحریک لبیک کی صورت اپنے لوگوں کو مذہبی انتہا کے گڑھے میں پھینک دیا، جس کا انجام یہ ہوا کہ عقیدے کی بنا پر آج ہر انسان ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے درپے ہے۔

ریاستِ پاکستان کی مذہبی بنیاد، رجعتی نظام تعلیم و نصاب، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا اپنے مفادات کے لئے مذہب کا استعمال،  امریکی ڈالروں کے عوض انتہا پسندی کا فروغ اور معاشرے کی شدت پسند بنیادوں پر تعمیر نے آج ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ یہاں عقل و فہم کی بات کرتے خوف آتا ہے۔ ریاست اور رجعت پسند قوتوں کے اشتراک سے تعمیراس رجعتی نظام میں جدید علم و تحقیق اور فکر کو مذہب کا دشمن بنا کر پیش کیا گیا، سوال کرنے اور تنقیدی سوچ پر پہرے لگا دیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے ایک طرف ناسا مارس کے سیارے پر پہنچ چکا ہے اور ادھر ہم نے ارضِ خدادادکے اس سیارے کو تسخیر کرنے کی بجائے اسے اپنے لئے جہنم بنا لیا۔

                                       

یہ تبصرہ کرنا کہ تحریک لبیک کے مطالبات یا طریقہ کار درست ہیں یا غلط، حضور اکرم ﷺ سے محبت کون کرتا ہے یا سچے مسلمان کا سرٹیفیکیٹ دینے کا حق کسے حاصل ہے ،شاید غیر ضروری موضوعات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد کیوں رکھی گئی؟ نظریہ پاکستان کو بنیاد بنا کر سیاست میں مذہب کی مداخلت کو کیسے استعمال کیا گیا؟ انتہا پسندی کے فروغ میں کن عوامل کے مفادات پنہاں ہیں؟ اور مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی اس خوفناک آگ پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے؟

یقیناً تحریک لبیک اور اسکے کارکنان جذباتی ہیں مگر وہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ اس جماعت کے بیشتر لوگ عام دیہاڑی دار مزدور، دکان چلانے یا وہاں کام کرنے والے غریب اور مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ہمارا بہت قریبی رشتہ دار ہے تو کوئی دوست یا محلے دار۔ ان تمام افراد کے اندر پیدا کیا گیا انتہاء پسندانہ رویہ، جذباتی پن ریاست کی جانب سے تشکیل دیا گیا۔ ریاست کی سرپرستی میں مرتب ہونے والے رجعتی اور نفرتوں پر مبنی نصاب تعلیم اور ریاستی خواہشات کے بیانیے پر مبنی مخصوص مذہبی شناخت کے حصول نے روٹی کپڑے اور مکان کے حقیقی سوال کو دبانے کی سازش کی۔

آج ہر ذی شعور انسان لہو لہان پاکستان کی حالتِ زار دیکھ کر شدید خوف میں مبتلا ہے۔ کوئی بھی شخص سیکولر نظریات رکھتے ہوئے بھی کھل کر نہیں کہہ سکتا کہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کی ضرورت ہے جہاں ریاست کا مقصد لوگوں کے عقیدے درست کرنا نہیں بلکہ شہریوں کو بنیادی ضروریات اور انصاف  کی فراہمی  یقینی بنانا ہے۔ اسی سازش کے تحت ریاست کی جانب سے ’سیکولرازم‘ کے معنوں کو اس قدر توڑ مروڑ کو پیش کیا گیا کہ اس معاشرے میں سیکولر ہونا ’کفر‘ ٹھہرا۔ ریاستی سرپرستی میں ہی لفظ ’سیکولر‘ کو ’لادینت‘ کے خود ساختہ معنی دیے گئے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی بنیاد خالصتاً مذہبی بنیادوں پر رکھی گئی مگر کوئی پاکستانی حکومت حتیٰ کہ آئین پاکستان بھی اس بات کی کھل کر وضاحت نہیں کرتا کہ آیا پاکستان ایک مذہبی (تھیوکریٹک) ریاست ہے یا (عوامی) جمہوری ریاست۔ آزادی حاصل کرنے کے 73 سال بعد بھی یہ ریاست کنفیوژن کا شکار ہے ۔

تاریخی حقیقت ہے کہ ریاست اور اس میں موجود اسٹیبلشمنٹ، مفاد پرست سیاسی ٹولے، مُلا اور بیوروکریسی کے اشتراک نے اس ریاست کو نہ مکمل طور پر مذہبی ریاست بننے دیا نہ ہی سیکولر۔ ریاست نے مذہبی لوگوں کو شدت پسند قرار دے کر انہیں دہشتگرد بنایا اور ان پر پابندیاں لگائیں۔ دوسری جانب ریاستی سرپرستی میں سیکولرازم کا جھوٹا مفہوم بنا کر پیش کیا یعنی ریاست نے ’اسلام پسند‘ اور سیکولر (غیرمذہبی ریاست) دونوں طبقات کو دھوکہ دیا۔

مذہب ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ کسی ایک مذہبی جماعت پر پابندی لگانے سے مذہبی انتہا پسندی ختم نہیں کی جا سکتی جب تک کہ مذہب کو سیاست سے الگ نہ کیا جائے وگرنہ اگر پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بننا ہے تو کسی مذہبی جماعت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ ہر مذہبی گروہ کی مذہب اور مسلک کو لیکر تشریحات مختلف ہیں، ان کے طریقہ کار میں فرق ہو سکتا ہے مگر ان کی حقیقی منزل ایک ہی ہے کہ وہ اس ملک میں اسلام کا مکمل نفاذ چاہتے ہیں اور آئین پاکستان انہیں اس جدوجہد کا جواز پیش کرتا ہے۔

دوسری جانب ریاست کے پاس ایک ہی حل ہے کہ قانونی اور آئینی طریقے سے مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا جائے اور پاکستان کو ایک سیکولر ریاست کے طور پر تسلیم کر کے مذہبی انتہاء پسندی کے اس بت کو دفن کیا جائے۔ جہاں صرف ایک مذہبی جماعت پر نہیں بلکہ مذہب کی بنیاد یا مذہب کو استعمال کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے۔

ماضی کی تمام غلطیوں کی تصحیح کرتے ہوئے پاکستان کو ایک ایسی ریاست بننے کی ضرورت ہے جہاں تمام مذاہب اور مکاتب فکر ریاستی امور میں مداخلت کئے بغیر آزادی سے اپنی عبادات کر سکیں۔ جہاں ریاست کسی بھی مذہبی و مسلکی پریشر کے بغیر جدید دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آزادانہ فیصلے لے سکے۔  جہاں کوئی بھی دائیں یا بائیں بازو کی جماعت ایمان کی بنیاد پر نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے۔ جہاں کوئی بھی فرد ، گروہ یا جماعت دین اسلام کو اپنے مفاد کے لئے استعمال نہ کرے۔ جہاں ریاست کا مقصد شہریوں کے عقیدوں کا فیصلہ کرنا نہیں بلکہ ہر عقیدے کے لوگوں کا تحفظ کرنا، انہیں صحت، تعلیم، روزگار و دیگر بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو۔

حسنین جمیل فریدی کی سیاسی وابستگی 'حقوقِ خلق پارٹی' سے ہے۔ ان سے ٹوئٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پر Husnain.381 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔