میں کسی نبی کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، امید ہے ایک دن پاکستان واپس جاؤں گی، آسیہ بی بی

میں کسی نبی کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، امید ہے ایک دن پاکستان واپس جاؤں گی، آسیہ بی بی
آسیہ بی بی نے فرانس میں سیاسی پناہ کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ جھگڑا پانی سے شروع ہوا تھا، میں نے توہین رسالت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کھانے، ثقافت اور موسموں کی یاد آتی ہے، امید ہے کہ ایک دن خاندان کے ساتھ پاکستان واپس جاؤں گی۔

اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ سے گستاخی کے الزام میں بریت کے بعد آسیہ بی بی پاکستان سے چلی گئی تھیں کیونکہ تحریک لبیک اور دیگر مذہبی گروہوں کی جانب سے ان کی جان کو خطرہ تھا۔

میڈیا سے گفتگو میں آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے بہن بھائیوں اور سسرالیوں کی یاد آتی ہے لیکن سب سے زیادہ وہ اپنے ملک کی ثقافت، کھانوں اور چار موسموں کو یاد کرتی ہیں۔



آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ ایک دن چیزیں بدل جائیں گی اور وہ 58 سالہ شوہر عاشق، 20 سالہ بیٹی ایشام اور 21 سالہ عائشہ جو معذور ہے کہ ہمراہ پاکستان جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جانے کی امید بالکل اُسی طرح برقرار رکھی ہوئی ہے جیسے جیل میں قید کے دوران آزادی کی امید رکھی ہوئی تھی۔

اپنی کتاب میں آسیہ بی بی نے ان سارے واقعات کا ذکر کیا ہے کہ کیسے ان پر گستاخی کا الزام لگا اور پھر کیسے طویل قید کے بعد رہائی ملی۔

آسیہ بی بی کا مزید کہنا تھا کہ میں نے کبھی توہین رسالت نہیں کی، میں کسی نبی کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ میں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ یہ معاملہ پانی کے گلاس سے شروع ہوا تھا۔

واضح رہے کہ آسیہ بی بی کینیڈا میں نامعلوم مقام پر تین بیڈروم والے اپارٹمنٹ میں اپنے شوہر اور بیٹیوں کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں مجھے کوئی دھمکی نہیں دی گئی۔ میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ کوئی مجھے جان سے مارنا چاہتا ہے لیکن میں پرسکون رہی، میں مضبوط ہوں۔

مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے آسیہ بی بی نے کہا کہ میں نے نہیں سوچا کہ مستقبل میں ہمارا خاندان کہاں جائے گا۔ اس حوالے سے ابھی تک کچھ نہیں سوچا۔ مجھے معلوم ہے کہ یورپی یونین میرے معاملے پر بہت سخت محنت کر رہی ہے اور وہی لوگ فیصلہ کریں گے کہ میں کہاں رہوں گی۔

آسیہ بی بی پر گستاخی کا الزام 2009 میں لگا تھا اور اگلے برس انہیں شیخوپورہ کی ایک عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف جہاں آسیہ بی بی نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی، وہیں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے بھی پریس کانفرنس کے دوران ان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائی تھی۔ سلمان تاثیر نے اس پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین میں کچھ ارچنیں ہیں جنہیں دور کیا جانا چاہیے۔



چند ہی روز بعد 4 جنوری 2011 کو سلمان تاثیر کو اسلام آباد کی کہسار مارکیٹ میں ان کے اپنے ہی گارڈ نے 27 گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ ممتاز قادری نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ کئی سال مقدمہ چلنے کے بعد ممتاز قادری یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا تھا کہ سلمان تاثیر نے کبھی بھی کوئی گستاخی کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اسے پھانسی کی سزا سنائی اور 29 فروری 2016 کو اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

2018 میں آسیہ بی بی کو بھی سپریم کورٹ نے عدم ثبوت اور گواہوں کے بیانات میں میں تضاد کی بنیاد پر بری کر دیا تھا۔ تحریک لبیک پاکستان نے ان کی بریت پر احتجاج کیا لیکن یہ احتجاج کسی کام نہ آیا۔ بلکہ چند ہی روز بعد تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری پر احتجاج کے دوران ریاست مخالف اقدامات پر جنوری 2020 میں راولپنڈی کی انسدادِ دہشتگردی عدالت نے خادم رضوی کے بھائی اور بھتیجے سمیت جماعت کے 86 کارکنان کو 55 سال فی کس قید کی سزا سنائی تھی۔

آسیہ بی بی اس وقت کینیڈا میں مقیم ہیں، اور فرانس میں سیاسی پناہ کی درخواست دیے ہوئے ہیں۔