کیا "میرے پاس تم ہو" کا اختتام بہتر ہوسکتا تھا؟

کیا
ویسے میری آج کل کےڈراموں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں اور اس کی وجہ بھی میرے پاس تم ہو جیسے ڈراموں کے اسکرپٹ ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے تو اس وقت کے ڈراموں میں چادر اور چار دیواری سے باہر کی بھی کہانی ہوا کرتی تھی مثلا ڈرامہ سیریل دھواں۔۔۔۔۔ہوائیں ۔۔۔۔۔اور دشت جیسے ڈراموں کا اسکرپٹ آج کل کے ڈراموں سے بہت ہی مختلف ہوا کرتا تھا لیکن آج کل جو ڈرامے بن رہے ہیں وہ ڈرائنگ روم سے شروع ہوکر ریسٹورنٹ اور شادی بیاہ کی تقریبات سے ہوتے ہوئے بیڈ روم پر جا کر اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔

پرانے ڈراموں میں ایک مضبوط کہانی ہوتی تھی اور سائیڈ لائن پر پیار محبت کی ایک الگ کہانی چل رہی ہوتی تھی لیکن آج کے ڈراموں میں پیار محبت افیئرز اور بےوفائی وغیرہ کو مرکزیت حاصل ہوگئی ہے۔ اور پھر روشن خیالی کی معراج کو ہم یوں بھی پہنچے ہیں کہ پرانے ڈراموں میں اکثر کنواروں کے پیار محبت کے افیئرز دکھائے جاتے تھے لیکن آج کل کے ہر دوسرے ڈرامے میں شادی شدہ عورت اور شادی شدہ مردوں کے معاشقے دکھا دکھا کر ہم نہ جانے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اور کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

 میرا فہم اس بات کو سمجھنے سے ہمیشہ قاصر ہی رہا ہے۔ جب سے ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو آن ائیر ہوا ہے مجھے کافی دوستوں نے اس ڈرامے کے بارے میں بتایا اور اس کی تعریف کی اور ہمیشہ کی طرح میں نے بغیر کوئی قسط دیکھے یہ اندازہ لگا لیا کہ اس ڈرامے میں بھی  شادی شدہ لڑکے یا لڑکی کا افیئر دکھایا گیا ہو گا؟ میرے دریافت کرنے پر مجھے میری توقع کے عین مطابق جواب ملا یعنی اس ڈرامے میں بھی ایک شادی  شدہ عورت کا پیسے کی خاطر اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ کر جانا دکھا گیا ہے۔

میں نےاس ڈرامے کی ایک قسط بھی نہیں دیکھی لیکن اس ڈرامے کی مقبولیت اتنی زیادہ تھی کہ جہاں سے بھی گزرتے تو اس ڈرامے کے ٹائیٹل سونگ کی آواز کانوں میں پڑتی سنائی دیتی تھی اور اس کےعلاوہ سوشل میڈیا پر بھی اس کے چرچے ہوتے رہے جہاں سے مجھے اس ڈرامے کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات ملتی رہی پھر جب اس ڈرامے کی آخری قسط رکوانے کے لیے کچھ لوگوں نے عدالت کا رخ کیا تو اس کی متنازع حیثیت نے اس ڈرامے کو مزید شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور پھر یہ سن کر بھی میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس ڈرامےکی آخری قسط سینما پر دکھائی جا رہی ہے اور وہاں کھڑکی توڑ رش دیکھنے کو مل رہا ہے تو آخر کار میرے ضبط کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا اور میں نے بھی ایک عزیز کے اصرار پر اس ڈرامے کی آخری قسط دیکھی۔ آخری قسط میں دانش جب اپنی سابقہ بیوی سے ملنے جاتا ہے تو اس کی بے وفائی کی یادوں کا دکھ اس پر غالب آ جاتا ہے اور دانش کو دل کا دورہ پڑتا ہے پھر اسے ہسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں ڈاکٹر دوران علاج دانش کی خواہش پر اس کے بیٹے کو اس سے ملاقات کے لئے ایمرجنسی وارڈ کے اندر لے جاتے ہیں، جہاں دانش ڈاکٹرز کی موجودگی میں اپنا آکسیجن ماسک اتار کر کافی دیر اپنے بیٹے سے باتیں کرتا ہے اور ڈاکٹر کھڑے دانش کی موت کا انتظار کرتے رہتے ہیں جیسے ہی دانش آخری سانسیں لیتا ہے، ڈاکٹر ملاقات ختم کروا کر اسے بچانےکی کوشش کرنے لگتے ہیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور دانش موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ دانش کی موت اگر اس کی محبوبہ کے دروازے پر ہی ہو جاتی اور ہسپتال کا سین کاٹ دیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ ہسپتال کا تمام تر سین انتہائی مصنوعی اور غیر حقیقی لگا جس نے ناظرین کی توجہ دانش کی موت کی اصل وجہ یعنی اس کی بیوی کی بے وفائی سے ہٹا کر ڈاکٹروں کی غفلت پر ڈال دی جس سے ڈرامے کا لطف خراب ہوا اور کہانی کا غیر حقیقی تاثر ابھرا۔ دانش کی اس اچانک اور غیر متوقع موت پر لوگ بہت دکھی اور ناخوش نظر آئے اور سوشل میڈیا پر کی ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملی جس میں کیا بچے کیا بوڑھے کیا جوان سب ہی روتے ہوئے نظر آئے اور کچھ تو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے نظر آئے اکثر لوگ ڈرامے کے اختتام پردانش کی موت سے ناخوش نظر آئے لیکن میری نظر میں دانش کی موت سے بہتر اختتام اس ڈرامے کا اور کچھ ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ایک شادی شدہ عورت کا اپنے شوہر کو چھوڑ کر جانا اور پھر واپس آکر ہنسی خوشی گھر بسا لینا دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے حقیقت میں عورت کا یہ گناہ کبھی بھی معاف نہیں کیا جاسکتا اس لئے دانش کی موت سے عورت کو واضح سبق دیا گیا ہے کہ لڑکی نے جو بے وفائی اپنے شوہر سے کی اس کے بعد اسے کبھی یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا اور اس کا شوہر آسانی سے اسے دوبارہ اپنا لے گا۔

دانش کی موت نے ہر عورت پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ مرد کی محبت کتنی ہی خالص اور سچی کیوں نہ ہو لیکن ایک مرد اگر چاہے بھی تو عورت کی بے وفائی کا گناہ معاف نہیں کر سکتا اور عورت اگر اپنی جنت کو چھوڑ کر جنت کی تلاش میں نکلے گی تو اسے جنت نہیں ملے گی اس لئے ہر عورت کو اپنے شوہر سے وفا کرنی چاہیے کیونکہ اس کی بے وفائی مرد کے لئے ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہے۔

اس کے برعکس اگر اس ڈرامے کا اختتام روایتی انداز "میں اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے" پر ہوتا اور دانش دوبارہ اپنی بیوی کو اپنا لیتا تو پھر اس ڈرامے سے کوئی مثبت سبق حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ دانش کا اپنی سابقہ بیوی کو دوبارہ اپنا لینے سے عورت کی بے وفائی کا گناہ بہت چھوٹا نظر آتا اور اس سے معاشرے کی عورت کو شئے ملتی کہ عورت چاہے کتنی ہی بے وفائی کر لے اگر مرد کی محبت سچی ہے تو وہ اسے معاف کر دے گا، اور اسے دوبارہ اپنا لے گا جو کہ بلکل غیر حقیقی بات ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ مرد عورت کی بے وفائی برداشت نہیں کر سکتا۔

اس ڈرامے میں چونکہ عورت کی بے وفائی کو دکھایا گیا ہے اس لئے میں نے عورت کی بے وفائی کے حوالےسے بات کی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد کے پاس بے وفائی کا لائیسنس ہے بلکہ بے وفائی کے حوالے سے یہی اصول مردوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔