قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کو بریفنگ دیتے ہوئے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا کہ پاکستان اگر بیرونی دنیا سے قرض لے گا تو پھر قومی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔
معید یوسف نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ معاشی خود مختاری بہت اہم ہے۔ جب آپ قرض لینگے تو اس کے اثرات خارجہ پالیسی پر پڑتے ہیں اور ملکی خود مختاری پر اس کے اثرات آتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے لئے بیرونی قرضے ختم کرنا ضروری ہے۔
معید یوسف نے واضح کیا کہ ہم جیو اکنامکس کی طرف جا رہے ہیں لیکن جیو اکنامکس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہم جیو اسٹریٹیجک سے ہٹیں گے۔
افغانستان پر بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لئے انسانی بنیادوں پر امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان، امریکا، ترکی، قطر ایران اور جاپان سمیت مختلف ممالک امداد دے رہے ہیں۔
معید یوسف نے کہا کہ بھارت نے گندم اور ادویات پاکستان کے راستے بھجوانے کا اعلان کیا تھا۔ ہم نے بھارت کو پاکستان کے راستے سپلائی کی اجازت بھی دے دی ہے لیکن اس کے باوجود بھارت نے ابھی تک گندم نہیں بھجوائی۔ اس کے علاوہ افغانستان میں بینکنگ کا نظام جب تک بحال نہیں ہو گا اس وقت تک امداد ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ خطے کی پہلی قومی سلامتی پالیسی ہے۔ اس پالیسی کو حتمی شکل دینے میں سات سال لگے۔ 2019ء میں اس پالیسی پر ڈرافٹنگ کمیٹی دوبارہ بنائی گئی تھی۔
پارلیمان میں اس پالیسی کو پیش کرنے پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب تک اس پالیسی کو پارلیمنٹ میں نہیں لائینگے، اس وقت تک فعال نہیں ہوگی کیونکہ اس پالیسی کو قانونی حیثیت صرف پارلیمان میں ملے گی۔
معید یوسف نے کہا کہ تعلیم کو بھی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے اور شہریت کو دوبارہ لازمی مضمون بنانے کے لئے سفارشات دی گئی ہیں اور منظم جرائم، ہائبرڈ وار کے موضوعات کو سلامتی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ان کے مطابق قومی سلامتی پالیسی کے خارجہ پالیسی حصے میں معاشی ترقی اور امن شامل ہے اور قومی سلامتی پالیسی دستاویز میں کوئی خاص چیز نہیں چھپائی گئی۔
قومی سلامتی پالیسی کی عملداری پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکریٹریٹ سے ملاقات کرکے پالیسی عمل درآمد پر بات ہوگی۔ قومی سلامتی پالیسی میں بہت سارے چیزیں بہت حساس ہیں، اس لئے ان کیمرہ بریفنگ کے لئے تیار ہوں۔
معید یوسف کے مطابق میں نے ایک ادارے کو ان کیمرہ بریفنگ دی، دوسرے دن وہ سارے میڈیا میں موجود تھی لیکن قومی سلامتی پالیسی پر تمام فریقن کو بریفنگ دینے کے لئے تیار ہوں اور اس پر عملدرآمد کے لئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔
قومی سلامتی کے مشیر نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان کی ایما پر پاکستانی طالبان کے ساتھ بات چیت شروع ہوئی تھی اور ایک ماہ کے لئے سیز فائر ہوا تھا جس کے بعد تحریک طالبان نے ایک ماہ کے بعد سیز فائر ختم کر دیا۔
ان کے مطابق ٹی ٹی پی کے ایشو پر افغان طالبان میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ ٹی ٹی پی دہائیوں سے افغان سرزمین استعمال کرتی آئی ہے اور دہائیوں کا اثر راتوں رات ختم نہیں ہوگا اور پاک افغان سرحد کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان پالیسی لیول پر اتفاق رائے موجود ہے۔
ان کے مطابق پاک افغان سرحد سے باڑ ہٹانے کا عمل مقامی سطح کا ہے اور ابھی وہاں نظام کی عملدراری کے مسائل ہیں اور جو لوگ باڑ ہٹانے میں ملوث ہیں وہ کابل کی مرکزی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔