ہم دریائے سندھ کی تاریخ کے امین ہیں۔ ہمارے یہاں تو بت بھی دیویوں کے نکلے۔ ادھر پوجا بھی عورت کو جاتا تھا۔ اس صنف کو ہمارے یہاں بڑی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سومنات کے بت توڑے گئے تو اس دیوی ماں کی کیا اوقات تھی؟ اس کا بت بھی پیروں کی ٹھوکر بننے لگا۔ جگہ جگہ سے ٹوٹ گیا۔ ناک کی ٹپ ٹوٹ گئی۔ تھوڑی بھی ریزہ ریزہ ہو گئی۔ جب کوئی بت قائم نہ رہا تھا تو دیوی ماں کیونکر بچتی؟
اگر غور کیا جائے تو بات کچھ ذو معنی سی بھی ہے۔ یوں تو بات صاف کرنی چاہیے لیکن یہ بات خود بخود یہ رنگ اختیار کر گئی۔ وہی تہذیب جو عورت کو پوجتی تھی، آج اسی عورت کو روندتی ہے۔ پیر کی جوتی گردانتی ہے۔
اچھی عورت وہی ہے جو ڈھیر سارے بچے پیدا کرتی ہے، ہر وقت دکھی رہتی ہے اور ہر کسی کا حکم سہتی ہے
یہ رویہ ہمارے معاشرے کا ایسا حصہ بن چکا ہے کہ ہر طرف نظر آتا ہے۔ اچھی عورت وہی ہے جو باآسانی قابو بھی آ جائے اور اسے اپنا فخر بھی گردانے۔ یہ عورت سر ڈھکتی ہے۔ ڈھیر سارے بچے پیدا کرتی ہے، ہر وقت دکھی رہتی ہے اور ہر کسی کا حکم سہتی ہے۔ خاندانی سیاست کا حصہ ہو، لیکن بغل میں چھری رکھ کر منہ سے رام رام کرے تو بھی یہ عورت اچھی ہے۔ اس کے برعکس وہ عورت جو اپنی مرضی سے کھانا کھاتی ہے، کپڑا پہنتی ہے اور گھر میں ٹکنے سے باغی ہے، بری عورت ہے۔ بھلے اس کا من کتنا ہی اجلا ہو، اس سے معاشرے کو چنداں سروکار نہیں۔ اگر اس نے نوکری کی بھی ٹھان لی تو اس کے کردار کے وارنٹ جاری کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ جو سوچے وہ بولے گی اور بری بھی بنے گی۔
اور اگر شوہر کا تعلق سیاست سے ہو تو بس پھر اپنی خیر منہ لیں
یہ بات تو ہمارے گھروں میں موجود عورتوں کی تھی۔ معاشرے کی یہی تلوار ہر اس عورت پر چلتی ہے جو مروجہ اصولوں پر سوال اٹھائے۔ گھر نہ بیٹھی ہو۔ مرد کے شانہ بشانہ چلے۔ اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرے۔ اب یہیں سے اندازہ لگا لیجئے کہ ان خواتین کا کیا حال ہو گا جو اپنی مرضی سے یا بغیر مرضی کے دنیا کی نظروں کے سامنے ہیں۔ چاہے وہ سوشل میڈیا پر موجود خواتین ہوں یا سیاست کے میدان میں سرگرم۔ اور کچھ نہ ہو تو اگر ان کے خاندان کے مردوں کا تعلق بھی سیاست سے ہے تو یہ اپنی خیر منا لیں۔
بستر پر پڑی کلثوم نواز تک کو نہیں بخشا جا رہا
الیکشن کا بازار گرم ہے اور سیاسی مہم کا ایک اہم جزو مخالفین کے گھر کی خواتین کی کردار کشی بھی ہے۔ یہ تو چلیں صحت مند خواتین کی بات ہے، بستر پر پڑی کلثوم نواز تک کو نہیں بخشا جا رہا جو زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ان کی تو بیماری تک کو حقیقی نہیں جانا جا رہا۔ مریم نواز جب سے سیاست کے میدان میں آئی ہیں، ان کی شادی کو ہی ان کا قصور سمجھا جاتا ہے۔
فاطمہ جناح سے لے کر آج تک کون ہے جو ان کے دشنام سے محفوظ رہی ہو؟
ماضی پر نظر دوڑائی تو فاطمہ جناح کو غدار قرار دے دیا گیا تھا۔ بینظیر مرحومہ کی جو صبح شام کردار کشی کی گئی، ان کے نام کے پمفلٹ جہازوں سے گرائے گئے۔ جمائما خان کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک پاکستانی سے شادی کر کے اس ملک کو اپنا بنا لیا تھا۔ اس کو کس دن اپنا سمجھا گیا؟ یہودی ایجنٹ کی تکرار ہی ختم نہ ہوئی۔ ابھی کچھ دن پہلے سیاسی لڑائی میں عمران خان کی بیٹی ٹیریان خان کو بھی گھسیٹ لیا گیا۔ بشریٰ بی بی کی شان میں جو صبح شام بیان کیا جاتا ہے وہ کس سے چھپا ہے۔
کل ہی ایک شرم ناک ٹویٹ نظروں سے گزری جس میں صنم بھٹو کی بیٹی آزادے جس کا سیاست سے کوئی لینا دینا بھی نہیں، کو اسی گھٹیا بیان بازی کا نشانہ بنایا گیا۔
خان صاحب ہماری تو گالیاں بھی ماں بہن کی ہیں
ہم تو عورت کو دیوی بنا کر پوجنے والے لوگ تھے۔ یہ ہمیں کیا ہو گیا؟ انحطاط کی جس دوڑ میں ہم لگے ہیں اس کا انجام بس پاتال ہی ہے۔ لگتا ہے ہمارے ذہنوں کی گاڑیاں بیک گئیر ہی لگائے بیٹھی ہیں۔ پیچھے کی ریس دبائے جا رہی ہیں۔
باچا خان نے کہا تھا کہ قومیں اس بات سے جانی جاتی ہیں کہ وہ اپنی عورتوں سے کیسا رویہ رکھتی ہیں۔ خان صاحب ہماری تو گالیاں بھی ماں بہن کی ہیں۔ ہمارا اختلاف کسی سے بھی ہو نزلہ عورت پر ہی گرتا ہے۔ ہم تو کردار کی دھجیاں بکھیرنے کے چیمپیئن ہیں۔ آپ پتہ نہیں کیسی باتیں کرتے ہیں۔ ایسی کی تیسی عورت کی اور خاص کر ایسی عورت کی جو ہمارے رواجوں سے میل نہ کھائے۔ بس کسی طرح ہمیں نام پتہ چل جائے۔ پھر آگے دیکھئے تماشہ۔