وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دے دی۔ وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے وزیراعظم سے ملاقات میں گرانٹ کی درخواست کی تھی۔
وزیراعظم سے ملاقات میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کا وفد شریک تھا جس میں لعل چند ملہی، ڈاکٹر رمیش وانکوان، جے پرکاش اکرانی، شنیلا رُتھ اور جیمز تھامس شامل تھے۔
وفد نے مذہبی اقلیتوں کو درپیش مسائل پر بات چیت کی اور ملک بھر میں دہشت گرد نیٹ ورکس کو کچلنے میں سول اور مسلح افواج کی کوششوں کو سراہا ہے جو انتہا پسند ایجنڈا کے حصے کے تحت دیگر مذاہب کے لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔
وفد نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لیے حکومت کے تعاون کا مطالبہ کیا جس کی وزیراعظم نے زبانی منظوری دی۔
وزیر برائے مذہبی امور نے میڈیا کو بتایا کہ اس حوالے سے سمری پہلے ہی وزیراعظم سیکریٹریٹ ارسال کی جاچکی ہے۔ ہم اس معاملے کو وزیراعظم سیکریٹریٹ کے سامنے پیش کریں گے اور آئندہ ہفتے اس پر دستخط ہونے کی توقع ہے۔ سرکاری طریقہ کار کے مطابق منظوری کی کاپی گرانٹ کی رقم مختص کرنے کے لیے وزارت خزانہ کو بھیجی جائے گی جبکہ تعمیراتی کام پاک-پی ڈبلیو ڈی (پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ) کے ذریعے انجام دیے جائیں گے۔
مزید برآں لعل چند ملہی نے کہا کہ اسلام آباد میں ہندو آبادی 3 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں سرکاری ملازمین، نجی شعبے کے ملازمین، کاروباری برادری کے افراد اور ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
لعل چند ملہی نے مزید کہا کہ جب تک سرکاری رسمی کارروائیاں جاری ہیں، ہم نے ابتدائی زمینی کام بشمول زمین برابر کرنے اور چار دیواری کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہندو پنچائیت اسلام آباد شری کرشنا مندر کا انتظام سنبھالے گی، پنچائیت کے صدر مہیش چوہدری نے کہا کہ ملک کے مختلف حصوں بشمول سندھ اور بلوچستان سے لوگوں کی بڑی تعداد ان علاقوں میں عدم تحفظ کی وجہ سے اسلام آباد منتقل ہوگئی ہے۔ مہیش چوہدری نے اب یہاں ہمارے خاندان موجود ہیں، اب شمشان گھاٹ، اجتماعی عبادات اور شادی کی تقریبات کے لیے ایک جگہ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی ہم دیوالی اور ہولی کی تقریبات حکومت کے کمیونٹی ہالز میں منعقد کرتے ہیں۔ مستقل قریب میں ہندوؤں کے لیے رسومات کے لیے ایک جگہ موجود ہوگی، تاہم اسلام آباد میں قانونی طور پر شادی کرنا ممکن نہیں کیونکہ ہندو میرج لا 2017 کے نافذ کے 3 سال بھی اس سے متعلق کوئی سرکاری قوانین میں اس حوالے سے قوانین نہیں بتائے گئے۔