کرک مندر دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم، جنہوں نے مندر کو نقصان پہنچایا ان سے پیسے وصول کریں، چیف جسٹس

کرک مندر دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم، جنہوں نے مندر کو نقصان پہنچایا ان سے پیسے وصول کریں، چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں مندر اور ہندو بزرگ کی سمادھی کو نذرآتش کرنے کے معاملے پر لیے گئے نوٹس کی سماعت کے دوران ہدایت کی ہے کہ چیئرمین متروکہ وقف املاک فوری طور پر کرک سمادھی کا دورہ کریں اور اس کی دوبارہ تعمیر شروع کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے مندر کو نقصان پہنچایا ان سے پیسے وصول کریں۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کرک میں ہندو سمادھی نذرآتش کرنے کے معاملے پر لیے گئے نوٹس پر سماعت کی۔

اس موقع پر چیف سیکریٹری، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا، انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا، پولیس کے نمائندے، متروکہ وقف املاک خیبرپختونخوا کے چیئرمین، اقلیتی کمیشن کے چیئرمین شعیب سڈل، چیئرمین ہندو کونسل رمیش کمار و دیگر پیش ہوئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نتے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بڑا افسوسناک واقعہ ہوا، حملہ آور ہر چیز کو تباہ کرتے رہے اور سمادھی کو بھی آگ لگادی، ’آئی جی صاحب‘ پولیس چوکی ساتھ ہے یہ واقعہ کیسے ہوگیا، آپ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں، جب اتنے لوگ جمع ہوئے، اس پر آئی جی نے جواب دیا کہ ایس پی اور ڈی ایس پی سمیت ڈیوٹی پر مامور 92 اہلکاروں کو معطل کیا ہے، واقعہ میں ملوث 109 افراد گرفتار ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس اہکاروں کو صرف معطل کرنا کافی نہیں ہے، انہیں تنخواہ ملتی رہے گی، اس واقعے سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی، ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوشل میڈیا پر تمام تصاویر دنیا بھر میں پھیل گئیں۔

دوران سماعت چیئرمین اقلیتی کمیشن شعیب سڈل کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے پوری ملک کی بدنامی ہوئی، کے پی متروکہ وقف املاک نے مندر کی جگہ کا تحفظ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ کرتاپور کی طرح یہ جگہ ہندوؤں کے لیے مقدس ہے۔شعیب سڈل کا کہنا تھا سمادھی کے ارد گرد کا علاقہ متروکہ وقف املاک کو اپنی تحویل میں لینا چاہیے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ سمادھی کو آگ لگانے کا اصل ملزم مولوی شریف ہے، اُمید کرتے ہیں کہ مولوی شریف کی جلد ضمانت نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ 30 دسمبر 2020 کو ایک ہجوم نے خیبرپختونخوا میں کرک کے علاقے ٹیری میں ایک ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی (مزار) اور اس ساتھ ملحقہ مندر کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔

خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے لوگ یہاں آتے تھے۔

واقعے سے متعلق پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ مندر پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔