کرک کے علاقے ارمڑ میں ہندو کے مندر پر ہزاروں مشتعل مذہبی جنونیوں نے حملہ کردیا۔ معلوم ہوا ہے کہ درجنوں پولیس جوانوں کی موجودگی میں ہندو مندر پر حملہ کیا گیا۔
حملے کے وقت پولیس کی بھاری نفری موجود تھی مگر انھوں نے مذاحمت نہیں کی۔
حملہ کرنے والوں میں زیادہ تعداد جمیعت علمائے اسلام کے کارکنوں کی تھی۔ نیا دور کو ذرائع نے بتایا کہ جمیعت علمائے اسلام کے کارکنوں کی رات کو دو علماء سے اہم میٹنگ ہوئی جس کے بعد حملے کی منصوبہ بندی کی گئی۔
ذرائع کے مطابق جمعہ کے روز جمعیت علمائے اسلام کے مقامی کارکنوں کی ایک میٹنگ ہوئی تھی اور مندر پر حملے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ حملہ کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں جمعیت اسلام ف کے مقامی علماء مولانا مرزاقین اور مولانا شریف کے نام سامنے آرہے ہیں
پولیس ذرائع کے مطابق اس حملے میں تقریبا تین ہزار لوگ شریک تھے۔
یاد رہے کہ ہندو برادری اس مندر کی توسیع چاہتی تھی۔ اس حوالے سے عدالت نے معروف ہندو پیشوا شری گورو پرمہا کے مندر پر مقامی ہندو کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔ درجنوں کی تعداد میں ہندو یہاں زیارت کرنے آتے تھےیہاں معروف ہندو پیشوا گوروں پرمہا کا قبر واقع ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں فیصلہ کیا تھا کہ مقامی ہندو آبادی اپنے مندر میں عبادت کرسکتی ہے۔
جمیعت علما اسلام ف کے دو سرکردہ علماء مولانا مرزاقین اور مولانا شریف گزشتہ کئی روز سے علاقے کے لوگوں کو تشدد پر اکساتے رہے۔ مقامی ہندو آبادی نے پولیس کو شکایت بھی کی تھی مگر کچھ نہیں ہوا۔