یہ بہت زیادہ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات ہے کہ آخر پاکستان کا سنیما صرف عیدین کا محتاج کیوں ہو کر رہ گیا ہے؟ سال بھر ہمارے سنیما گھروں پر غیر ملکی فلمیں چلتی ہیں جبکہ پاکستان کی فلمیں صرف عیدین پر ریلیز ہوتی ہیں۔ چونکہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی ہے اس لئے صرف ہالی ووڈ کی فلمیں ہی نمائش پذیر ہوتی ہیں۔ ان فلموں کو دیکھنے والا طبقہ بہت محدود ہے جس کی وجہ سے سنیما گھروں کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سنیما گھروں کو ہر جمعہ کو نئی فلم چاہئیے ہوتی ہے یا کم از کم دو ہفتے بعد ایک نئی فلم ضرور ریلیز ہونی چاہئیے تاکہ سال بھر 40 سے 45 فلمیں ریلیز ہوں۔ تب جا کر سنیما گھروں کی رونقیں بحال ہوں گی۔
عیدالفطر پر پاکستان فلم 'منی بیک گارنٹی' نے سپر ہٹ اور 'ہوئے تم اجنبی' نے سیمی ہٹ کامیابی حاصل کی تھی جبکہ 'دادل' کی کارکردگی اوسط درجے کی رہی تھی۔ اب عیدالاضحٰی پر دو بڑی فلمیں ریلیز ہونے جا رہی ہیں بلکہ پاکستان میں پہلی بار یہ تجربہ کیا جا رہا ہے کہ فلم ' تیری میری کہانیاں' کو تین حصوں میں بنایا جا رہا ہے جس کے تین الگ الگ سکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر ہیں۔
پہلی کہانی کا نام ' جن محل' ہے جس کے سکرپٹ رائٹر باسط نقوی اور ڈائریکٹر نبیل قریشی ہیں۔ مرکزی کردار مانی اور حرا نے ادا کئے ہیں۔ دوسری کہانی کا نام ' پسوڑی' ہے جس کے سکرپٹ رائٹر واسع چوہدری اور ڈائریکٹر مرینہ خان ہیں۔ مرکزی کردار شہریار قریشی، رمشا خان اور بابر علی نے ادا کیے ہیں۔ بابر علی جیسے بہترین اداکار کو بے مقصد کردار میں ضائع کیا جا رہا ہے حالانکہ وہ خود ہیرو ہیں۔ اسی سلسلے کی تیسری کہانی کا نام ' ایک سو تیسواں' ہے جس کے سکرپٹ رائٹر خلیل الرحمٰن قمر اور ڈائریکٹر ندیم بیگ ہیں۔ مرکزی کردار مہوش حیات اور وہاج علی نے ادا کئے ہیں۔
خلیل الرحمٰن قمر کے بارے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نام ہی کافی ہے۔ ان کے مکالموں کی گونج پوری دنیا میں جہاں جہاں اردو اور ہندی بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت بولی میں بھی ان کے پائے کا کوئی سکرپٹ رائٹر نہیں ہے۔
اس فلم کے تین ہدایت کاروں میں سے نبیل قریشی نامعلوم افراد 1 اور 2، قائد اعظم زندہ باد اور ایکٹر ان لاء جیسی سپر ہٹ فلمیں دے چکے ہیں۔ ندیم بیگ جوانی پھر نہیں آنی 1 اور 2، پنجاب نہیں جاؤں گی، لندن نہیں جاؤں گا اور میں ہوں شاہد آفریدی جیسی سپر ہٹ فلمیں بنا چکے ہیں۔ جبکہ تیسری ہدایت کارہ مرینہ خان کی یہ پہلی فلم ہے۔ اب کامیاب ترین ہدایت کاروں کے ساتھ ان کی اس فلم میں حصہ داری ہے۔ فلم کی کامیابی کے بعد ان کے حصے میں کیا آتا ہے یہ اہم سوال ہو گا۔
دوسری اہم ترین فلم ' مداری' ہے جو کراچی کے سیاسی حالات کے منظر پر بنائی جا رہی ہے۔ کراچی کے علاقے لیاری پر یہ دوسری فلم ہے۔ اس سے پہلے 'دادل' بنائی گئی تھی جو عید الفطر پر ریلیز ہوئی تھی۔ فلم مداری کے سکرپٹ رائٹر اور فلمساز علی رضوی جبکہ ڈائریکٹر سراج ہیں جن کی یہ پہلی سلور سکرین کوشش ہے۔ فلم کا ٹریلر بہت متاثر کن ہے۔ کراچی شہر میں بہت کہانیاں ہیں۔ اس طرح کی فلموں کو کامیاب ہونا چاہئیے۔ فلم کے ہیرو عباد عالم کی یہ پہلی فلم ہے اور ان میں ہیرو بننے کی بھرپور صلاحیت ہے۔
عیدالاضحٰی پر بولی ووڈ کی ایک بڑی فلم ' ستیہ پریم کی کتھا' بھی بھارت سمیت دنیا بھر کے چار ہزار سے زائد سنیما گھروں میں ریلیز ہو رہی ہے۔ فلمساز ساجد ناڈیاڈ والا ہیں جن کا شمار بولی ووڈ کے 5 بڑے فلمسازوں میں ہوتا ہے۔ ستیہ پریم کی کتھا کے سکرپٹ رائٹر سری کانت شرما ہیں جبکہ ڈائریکٹر سمیر ونکھڈے ہیں۔ مرکزی کرداروں میں کیارا ایڈوانی اور کارتک آرین ہیں۔ اس جوڑی کی پچھلی فلم بھول بھلیاں 2 باکس آفس پر سپرہٹ رہی تھی۔ فلم کا میوزک پہلے ہی مقبول ہو چکا ہے۔ فلم کی ہائپ بھی خوب بنی ہوئی ہے۔
اگر یہ فلم کامیاب ہو گئی تو کارتک آرین کی سٹار پاور مزید مستحکم ہو جائے گی اور اس سال رنبیر کپور کی کامیاب ہونے والی فلم 'تُو جھوٹی میں مکار' کے بعد دوسری رومانی فلم ہو گی جو باکس آفس پر کامیابی حاصل کرے گی۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔