ضیا دور کے بارے میں تو ہم نے بہت کچھ پڑھ رکھا تھا لیکن اس کے سیکرٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مجیب الرحمان کے ابلاغی کارناموں سے پہلا تعارف پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں استاد محترم جی ایم نقاش کے ذریعے ہوا۔ موصوف اس دور میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے، ان کے بقول آزادی صحافت کیلئے وہ ذاتی طور پر جنرل مجیب کی ڈاکٹرائن کے نشانے پر آئے اور اس راہ میں اپنا جواں سال بیٹا بھی کھویا جس کی انہیں باقاعدہ دھمکی دی گئی تھی۔
جی ایم نقاش صاحب نے بتایا کہ اس دور میں صحافت پر پابندیاں اس قدر سخت تھیں کہ اخبارات کا اداریہ تو کیا خبروں کی سرخیاں تک منظور ہو کے آتی تھیں۔ ہر سیاسی پارٹی کے نام کے ساتھ کالعدم لکھنا ضروری ہوتا، ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے خاندان کی خبر کے ساتھ تصویر لگانا گناہ کبیرہ سے کم نہ تھا۔ جو اہم بات استاد محترم نے بتائی وہ یہ تھی کہ ان تمام پابندیوں کے ساتھ ایک ڈاکٹرائن کو فروغ دینے کیلئے پورا نظام وضع کیا گیا۔ ان کے مطابق یہ ایسی ڈاکٹرائن تھی کہ جس نے اس سے پہلے الطاف گوہر، قدرت اللہ شہاب اور جنرل شیر علی والی ڈاکٹرائنز کو بھی گہنا کر رکھ دیا۔ اس ڈاکٹرائن کیلئے جبر، کرائے کے نئے اور آزمودہ پرانے صحافی، پاکستان ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان اور اخبارات سب سے اہم ترین ذریعہ ٹھہرے۔
ریڈیو اور پی ٹی وی پر ایسے ڈراموں کی بھرمار ہو گئی جس میں ایک اُمہ کا درد رکھنے والا شخص آگے بڑھ کر عنان اقتدار چھین لیتا ہے۔ مذہب اور سائنس کے تڑکہ والے ڈرامے اور ادب تخلیق ہونے لگا۔ ان تمام پروگراموں کے ذریعے ایک پیغام سب سے اہم ہوتا کہ عوام کو ہر حال میں حکمران کی اطاعت کرنی ہے۔ اورنگزیب عالمگیر اور اسی طرح کے تمام بادشاہ قومی ہیرو ٹھہرے۔ اسی دور کی نصابی کتب سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ اورنگزیب عالمگیر دراصل ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ انہیں نصابی کتب اور ابلاغ عامہ کے ذرائع کے ذریعے قوم کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی جانے لگی کہ مشرقی پاکستان ٹوٹنے کے ذمہ دار بھارت اور ذوالفقار علی بھٹو تھے اور اس وقت کا حکمران ٹولہ تو دراصل معصوم اور محب وطن تھے۔
اس ڈاکٹرائن کا سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ لمبے دورانیے کے پروگرام متعارف کروائے گئے، اگر ایک طرف اخبارات میں زیڈ اے سلیری کے صدارتی یا آمرانہ نظام کے حق میں شیطان کی آنت جتنے لمبے کالم ہوتے تو دوسری طرف ٹیلی ویژن پر لانگ پلے یا زیادہ قسطوں والے ڈرامے متعارف کروائے گئے۔ اسی دور میں کرکٹ کی کھیل کو مقبول بنانے کا کام شروع ہوا کیونکہ اس کھیل کا دورانیہ زیادہ تھا۔ ان تمام اقدامات کا مقصد صرف ایک تھا کہ لوگ ان چیزوں میں مصروف رہیں اور ملک کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل سے ان کی توجہ ہٹ جائے۔
اس ڈاکٹرائن کا دوسرا اعلی ترین مقصد معاشرے کی نچلی سطح تک تقسیم در تقسیم ٹھہرا۔ اس دور میں پاکستانی قوم کی فرقہ، زبان اور برادری کی بنیاد پر باقاعدہ کوشش سے تقسیم کی گئی۔ ابلاغ کے ان ذرائع سے جھوٹ اور سچ کی ایسی آمیزش کی گئی کہ آج کے دور کو نکال کر کوئی اور دور اس مرتبہ تک نہیں پہنچ سکا۔ استاد محترم کے بقول پی ٹی وی نے ضیا الحق کی اقوام متحدہ میں تقریر سے پہلے تلاوت قرآن پاک نشر کی اور ٹی وی اخبارات میں اپنے بھرتی شدہ لوگوں سے یہ مشہور کر دیا کہ ضیا نے اقوام متحدہ کو مجبور کیا کہ وہ اس کی تقریر سے پہلے تلاوت قرآن کرانے کی اجازت دے۔ یہ اور اس طرح کے کئی جھوٹ اس لئے گھڑے جاتے کیونکہ اس دفعہ آمر نے اپنے اقتدار کے دوام کیلئے اورنگزیب عالمگیر کی طرح مذہب کو استعمال کرنے کی ٹھان لی تھی۔
اسی سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے معاشرے میں کلاشنکوف اور جہادی کلچر کو فروغ دیا گیا۔ جگہ جگہ جہاد کیلئے نوجوانوں کی بھرتی کیلئے سرکاری سرپرستی میں کیمپ قائم ہو گئے۔ کالج اور یونیورسٹیوں پر مذہبی جماعتوں کے سٹوڈنٹ ونگ قابض ہو گئے۔ حب الوطنی کے پیمانے پر پورا اترنے کیلئے مذہب اور مخصوص فرقے بھی متعین کر دیے گئے۔ آزادی اظہار خلاف شریعت اور خلاف قانون قرار پائی اور ایسے لوگوں کی منزل جیل اور کوڑے قرار پائے۔
آپ بھی سوچتے ہوں گے مجھے یہ بے وقت کی راگنی کیوں یاد آ گئی۔ دراصل مجھے آج کل ان کے اس لیکچر کا آخری حصہ بہت یاد آ رہا ہے، جب میں نے سادگی سے سوال پوچھا کہ آخر یہ مصنوعی نظام اپنی موت آپ مرگیا تو انہوں نے یادگار جواب دیا کہ اب بھی تو دراصل وہی نظام ہے کیونکہ اس نظام کے کسی خالق کو اپنے کئے کی سزا نہیں ملی۔
ان کے بقول اب ایک جنرل مجیب الرحمن یا جنرل ضیا نہیں بلکہ ایسی کئی نسلیں اب پیدا کی جاچکی ہیں اور بہت جلد آپ لوگ ایسی ذہنیت والے لوگوں کو مختلف اداروں، مسالک، مساجد، سیاست، معاشرت حتی کہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں موجود پاؤ گے کیونکہ قوم کی تقسیم کا عمل رکا نہیں اور بعد میں آنے والے بھی اسی نظام کی پیداوار تھے اور عوام کو اس تقسیم کی پرواہ تک نہیں۔ استاد محترم نے فرمایا کہ خاکم بدہن بہت جلد آپ لوگ اس تقسیم در تقسیم کو بدترین سطح پر ملاحظہ کریں گے۔ ان کے یہ فقرے مشرف دور میں بھی یاد آئے لیکن اچھا ہونے کی امید آخرکار بر آئی، بعد کے سیاسی ادوار میں بھی کئی بار دل دھڑکا کہ کہیں استاد محترم کی باتیں سچ نہ ہو جائیں۔ اپنے تئیں بھی جنرل مجیب الرحمان پر بڑی تحقیق کی اور انہیں ناکام و نامراد ثابت کیا، لیکن پہلی بار میرا ماتھا تب ٹھنکا کہ دراصل ایسے لوگ ہی تو کامیاب ہیں، جب زرداری حکومت نے 2010 میں جنرل مجیب الرحمان کو ان کی خدمات کے صلہ میں صدارتی تمغہ سے نواز دیا۔ بس تب سے ناامیدی کا ایک سفر جاری و ساری ہے۔
ملک میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی بھگتی، کراچی میں قتل عام دیکھے، فرقہ کے نام پر لوگوں کے گلے کاٹے گئے۔ میمو گیٹ، ڈان لیکس اور منتخب وزیراعظم رسوا ہو کر گھروں یا جیل میں جاتے دیکھ لئے۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں ہونے والی سازشوں کو بھی دیکھا اور اس کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والے لوگوں کو بھی دیکھ لیا۔
قومی حالت تو استاد محترم کی پیش گوئی سے بھی بدتر نظر آتی ہے۔ میڈیا پر ایسا جبر کا دور ہے کہ جنرل مجیب بھی شرما جائیں۔ سچ کے ساتھ جھوٹ کی آمیزش کا تکلف بھی ختم ہو چکا۔ جو سچ بولنا چاہتا ہے اس کی منزل مقدمے اور جیل ہیں۔ بعض لوگوں کیلئے حکم ہے کہ وہ ہر تنقید سے مبرا ہیں، ان کی کسی غلطی کی نشاندہی گناہ کبیرہ ٹھہری ہے۔ اگر پھر بھی کسی صحافی کو آزادی سے کام کرنے کا شوق ہے تو وہ نوکری سے جائے گا اور اگر مالک نہ مانے تو وہ جیل جائے گا۔ خوشامدی سیٹھوں، کالے دھن والوں اور جرائم پیشہ لوگوں کو میڈیا چینل عطا کر دیے گئے تا کہ ایسی تقسیم پیدا ہو کہ اصل ذمہ داروں کو پہچانا ہی نہ جا سکے۔
کرونا کی وبا نے تو کسی چیز کے پردے میں رہنے کا تکلف تک ختم کر کے رکھ دیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک ہی حکم ہے کہ کرونا مریضوں کی بڑھتی تعداد کی خبر کو کرپشن کے خلاف بیانیہ سے بدل دیا جائے۔ وبا کے خلاف حکومتی کارکردگی پر کم سے کم بات ہو بلکہ قوم کو لاک ڈاؤن، سمارٹ لاک ڈاؤن کے بدلے غربت بڑھ جانے کی بحث میں الجھا دیا جائے۔ بیماری اور اموات میں اضافہ کی خبروں کو دبایا جائے۔ ایسی کوئی خبر میڈیا میں نہ آنے پائے جس سے حکمرانوں کی نااہلی ثابت ہو یا وبا کے پھیلاؤ میں ان کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے، جو صوبائی حکومت اس وبا کے خلاف کام کرنا چاہ رہی ہو اس کا ناطقہ بند کیا جائے۔
علما اور تاجروں کو اپنی ہی بہ امر مجبوری بنائی ہوئی پالیسی کے خلاف کھڑا کر دیا جائے تا کہ قوم مزید تقسیم ہو۔ ہم سب چشم دید گواہ ہیں جب یہاں کے علما نے پوری مسلم امہ کے فیصلہ کے برخلاف نماز اور تراویح باجماعت ادا کرنے کیلئے کس کس طرح کے حیلے بہانے کئے اور شہہ پاتے ہی بعض مواقع پر تشدد کرتے یا اس کی دھمکی دیتے بھی نظر آئے۔ پاکستان کا وزیراعظم براہ راست قوم کو تقسیم کرنے میں ملوث پایا گیا۔ اسی کی کوششوں سے کے پی اور پنجاب میں صرف تین دنوں میں لاک ڈاؤن عملاً ختم ہو گیا۔
یہ طبی اختراع بھی سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھی کہ ہم کوئی دنیا سے انوکھی قوم ہیں لہذا ہم پر کرونا وائرس ویسے اثر انداز نہیں ہوتا۔ ٹیسٹوں کی تعداد جان بوجھ کر کم رکھی گئی۔ میڈیا کی توجہ اور طرف لگانے کیلئے چینی برآمد سکینڈل سے پیسے بنانے والوں پر بحث شروع کرائی گئی لیکن اس حکم کے ساتھ کہ برآمد کی اجازت دینے والوں کے نام اسی شوروغوغا میں دب جائیں۔ یہ رپورٹ بھی ایسے شخص کے ذمے لگائی گئی جو پہلے ہی پاناما رپورٹ بنا کے کافی "عزت" کما چکا ہے۔
کرپشن کے ڈرامہ میں مزید رنگ بھرنے کیلئے "باکردار" چیئرمین نیب کی پھر حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تا کہ اختلافی آوازوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جا سکے۔ ایسی تمام کارروائیوں کا مقصد صرف ایک ہے کہ ملک کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹی رہے اور وہ گروہ در گروہ بٹ کر رہ جائیں۔ عوام یہ سوال نہ پوچھ سکے کہ ملکی معیشت کے ساتھ کیا ہاتھ ہوا، کیسے سال 2019 کی قومی شرح نمو کو تین اعشاریہ تین کر کے دکھایا گیا جبکہ وہ ایک اعشاریہ نو فیصد تھی۔ عوام تو یہ بھی پوچھ سکتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کیا ہوا اور جب اہل کشمیر پر آرٹیکل 370 نافذ ہوا تو ہمارے حکمران کس اہم کام میں مصروف تھے۔
پی ٹی ایم کی تحریک کیوں کھڑی ہو گئی؟ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ ایسی آوازوں اور لوگوں کو غدار اور سکیورٹی رسک قرار دینے کیلئے سوشل میڈیا سکواڈ بھرتی کئے گئے ہیں۔ پھر بھی باز نہ آئیں تو مولویوں کے فتووں کے آگے بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ بس یہی سب کچھ دیکھ کر اور جی ایم نقاش صاحب کے لیکچر کا آخری حصہ دل کو دھڑکا لگائے رکھتا ہے۔ ایسی تقسیم تو شاید 1970 میں بھی نہیں تھی۔ خدانخواستہ ان کا فرمایا اس دفعہ سو فیصد سچ ثابت نہ ہو، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ تقسیم کرنے والوں کی نسل بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ عوام نے آگے بڑھ کر کسی کا ہاتھ روکا نہیں۔ قوم نے کسی کو سزا نہیں دی، شکست مان لی، ان کو بادل نخواستہ اپنا رہبر مان لیا اور نصیب کا لکھا سمجھ کے چپ سادھ لی وگرنہ یہ سب دیکھ کر کوئی معمولی زندہ معاشرہ بھی آواز اٹھائے بغیر نہ رہتا۔
کہیں تارِدامنِ گل ملیں تو یہ مان لیں کہ چمن کھلیں
کہ نشان فصلِ بہار کا سرِشاخسار کوئی تو ہو