پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن سپریم کورٹ آف پاکستان نے معطل کر دیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے درخواست دائر کرنے والے 'جیورسٹ فاؤنڈیشن' کے وکیل ریاض حنیف راہی کے نام کا چرچہ ہے۔
ریاض حنیف راہی نے گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے طریقہ کار کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔
24982/
صحافتی حلقوں کے مطابق، ریاض حنیف راہی عام طور پر میڈیا نمائندگان سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں۔ لیکن مذکورہ پٹیشن دائر کرنے سے قبل انہوں نے یہ معاملہ خفیہ رکھنے کی کوشش کی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس اہم کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ہاتھ سے لکھے ایک صفحے کی درخواست عدالت کے سامنے تھی، جس میں وکیل ریاض حنیف راہی نے اپنی دائر کردہ درخواست واپس لینے کا کہا تھا۔ لیکن عدالت نے آرمی چیف کی توسیع کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی درخواست مسترد کر دی۔
https://youtu.be/wdK-TIiUukI
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ انہیں نہیں معلوم کس کے دباؤ میں آ کر درخواست واپس لی گئی۔
چیف جسٹس نے بعدازاں درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کر دیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔
ریاض حنیف راہی اسلام آباد میں وکالت کرتے رہے ہیں اور ان کا شمار ایسے وکلا میں ہوتا ہے جو عوامی مفاد سے متعلقہ درخواستیں عدالت میں جمع کراتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی وکلا میں مولوی اقبال حیدر، شاہد اورکزئی، محمود نقوی بھی شامل ہیں۔
24966/
ریاض حنیف راہی کی درخواست پر ہی سابق چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کے زیرِ استعمال بلٹ پروف گاڑی واپس لی گئی تھی۔
ریاض حنیف راہی نے سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کو بھی چیلنج کیا تھا جسے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مسترد کر دیا تھا۔
علی عدلیہ کو کور کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں مشہوری کا بہت شوق ہے اسی لیے وہ ہر بڑی شخصیت کے خلاف درخواستیں دائر کرتے رہتے ہیں۔ موصوف سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ ہیں انہیں عادی پیٹیشنر بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ سپریم کورٹ میں سیاسی نوعیت یا اہم نوعیت کے معاملات پر درخواست دائر کرتے رہتے ہیں۔ ان کی درخواست کو اکثر سپریم کورٹ فضول قرار دے کر خارج کر دیتی ہے لیکن بعض پر فیصلے بھی ہوئے ہیں ۔ اس مرتبہ عدلیہ نے درخواست واپس لینے کے باوجود کارروائی جاری رکھی اس طرح موصوف کو لینے کے دینے پڑ گئے۔
ریاض حنیف راہی درخواست واپس لینے بھی خود نہیں پہنچے اور سادہ کاغذ پر درخواست بھیجی تھی۔ سماعت شروع ہونے کے بعد ریاض راہی کمرہ عدالت میں پہنچے۔ تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر فوری چلے گئے۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ درخواست قابل سماعت بھی ہو سکے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے اب وہ مشکل میں پھنس چکے ہیں۔
24937/
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ افتخار چوہدری کے دور سے سپریم کورٹ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی ہیڈ لائنز میں رہا۔ روزآنہ سپریم کورٹ کی تین سے چار خبریں ہیڈلائنز کی زینت بنی رہتی تھیں۔ اخبارات بھی بڑے بڑے کیسوں اور ازخود نوٹس کی سماعتوں سے بھرے رہتے تھے۔ اسی دوران سستی شہرت کے پیاسے سپریم کورٹ سمیت عدالتوں کے گرد منڈلانے لگے۔
پہلے انہوں نے خود سے درخواستیں دائر کرنی شروع کیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے کہنے پر بھی درخواستیں دائر کرنے لگے۔ ریاض راہی جیسے لوگ کراچی، لاہور اور ہر شہر میں موجود ہیں جو وقتا فوقتا درخواستیں دائر کر کے معزز عدلیہ کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ اس میں الیکٹرانک میڈیا بھی برابر کا حصہ دار ہے۔