تیس برسوں سے زائد عرصے تک اقتدار پر براہ راست قبضے کے باوجود اسٹبلشمنٹ کو مقدس گائے کا درجہ حاصل رہا۔ اس کے محض تذکرے سے ہی طاقت اور حب الوطنی کا کوڑا حرکت میں آجاتاتھا۔ اس شاہی تکریم کی تین بنیادی وجوہات تھیں: نمبر ایک، اسے انڈین جارحیت کے خلاف واحد حفاظتی پشتہ سمجھا جاتا تھا۔ اس نے نصابی کتب میں من پسند اور من گھڑت تاریخ کو شامل کرکے اپنا یہ تصور راسخ کردیا تھا۔ نمبر دو، اس کے لیڈروں کو بدعنوان یا چال باز نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی اسٹبلشمنٹ میڈیا کو کنٹرول کرکے ایسی تمام خبروں کو سامنے آنے سے روک دیتی تھی۔ خاص طور پر جواس کے کمرشل منصوبوں، مراعات اور فوائد پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتیں۔ نمبر تین، قومی سلامتی، نظریہ پاکستان اور ملکی استحکام کے لیے اسے ناگزیر خیال کیا جاتا رہا۔ دوسری طرف سیاست دانوں کوبدکردار، پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے، یعنی غدار اور بدعنوان سمجھا جاتا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو شاید ان کی اپنی خامیاں بھی تھیں، لیکن اسٹبلشمنٹ نے بھی عوام کے ذہن میں سیاست دانوں کا مخصوص تاثر ابھارنے کے لیے پوری منصوبہ بندی اور محنت سے طویل عرصے تک کام کیا۔
لیکن حالیہ دنوں میں یہ تاثرات نمایاں طور پر زائل ہوتے جارہے ہیں۔ شہنشاہ کی چال بازی، منافقت، خودپارسائی، مفادپرستی بے نقاب ہوچکی۔ عوامی رائے یہ ہے کہ شہنشاہ نے 2018 ء میں ان کے ووٹ چرا کریہ کٹھ پتلی، ہائبرڈ نظام ان پر مسلط کردیا۔ اس چوری کے نتیجے میں قائم ہونے والی اس ہائبرڈ حکومت کی مایوس کن ناکامی کی وجہ سے تین بار منتخب ہونے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف ایک بار پھر عوام کے ذہنوں پر راج کررہے ہیں۔ اب وہ اسٹبلشمنٹ کے سیاسی عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب نواز شریف نے کشتیاں جلاتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے لیڈروں پر کاری ضربیں لگائیں تو ادارہ اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ کرنے اور تنقید کی زد میں آئے ہوئے قائدین کے ذاتی عزائم کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور ہوگیا۔
اب جج حضرات کی باری ہے۔ آزادی کے بعد سے عدلیہ کو ایگزیکٹو کی باندی سمجھا جاتا تھا۔ نوآبادیاتی دور کے بعد سے یہ صورت حال جوں کی توں رہی۔ سامراجی انتظامیہ کے سیاسی معاملات میں واقعی ایسا ہی تھا۔ لیکن 1973 میں ایک جمہوری آئین کے ذریعے ”آزادی” کی نوید سنائی گئی۔ اس نے ایگزیکٹو کے بوجھ کو کم کرنے کی گنجائش پیدا کردی۔ تاہم بدقسمتی سے کئی دہائیوں تک ملک پر مسلط رہنے والے مارشل لا نے اسے گرہن زدہ کردیا۔ نظریہ ضرورت کی تلوار نے انصاف کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کاٹ دیے۔ ایک مختصر بحالی اس وقت ہوئی جب 2008-2009 میں ایک فوجی آمر کے خلاف وکلاء کی تحریک اٹھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی قیادت میں آمریت سے بغاوت نے خود ہی احتساب کی تلوار سنبھال لی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے ایگزیکٹو اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کردیا۔ بدقسمتی سے نئی بنچ جلد ہی بار اور میڈیا کی نظروں میں اپنا وقار اور ساکھ کھو بیٹھی۔ وہ بار اور میڈیا جس نے اس کی بحالی کی تحریک چلائی تھی۔ کچھ سینئر ججوں کی انا پرستی، منافقانہ، جاہلانہ اور بزدلانہ طرز عمل کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کو ایک بار پھر ریاست کے اس اہم ستون پر تسلط جمانے کا موقع مل گیا۔ اس ضمن میں پاکستان کے دو سابق چیف جسٹس، ثاقب نثار اور آصف کھوسہ قابل ذکر ہیں۔ یہ جج ہمیشہ پاکستان کی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے رہیں گے۔ آنے والے وقتوں میں ان کے فیصلے اور توہین ملک کی بار میں گونجتی رہے گی۔ اس مرتبہ بھی یہ نواز شریف ہی ہیں جو ججوں کا نشانہ بنے۔ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر اُنھیں عوام کی نگاہوں میں بلند ہونے کا موقع ملا ہے۔ عدالت میں ہونے والے ستم نے نواز شریف کو شرمندگی کی بجائے سربلندی عطاکی ہے۔
پانچ حالیہ واقعات نے اب تک اعلیٰ عدلیہ کو بے نقاب اور بدنام کیا ہے۔ پہلا مقدمہ سپریم کورٹ کے آزاد اور بہادر جج قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق ہے۔ اُنھوں نے ڈیپ سٹیٹ کی غیر آئینی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی جرات کی۔ اس جرات کی پاداش میں وہ اسٹبلشمنٹ کے حامی اپنے ہی ساتھیوں کے تیروں کی زد میں آگئے۔ وہ بمشکل ہی بچ پائے ہیں۔ وہ اس لیے کہ بار متحد ہوکر اُن کے آئینی موقف کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا۔
دوسرا کیس نواز شریف کو الیکشن میں کھڑے ہونے سے تاحیات نااہل قرار دیے جانے کا ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے تیسرے درجے کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک ایسی آمدن کو بھی اثاثہ قرار دے دیا جو وصول بھی نہیں کی گئی تھی۔ تیسرا اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے بارے میں ہے جنہوں نے نواز شریف کو سزا سنا کر اسٹبلشمنٹ کو ممنون کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ انہیں بغیر پنشن کے نکال دیا گیا جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کی اپیل کو منجمد کر دیا۔ چوتھا کیس احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا تھا۔ نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کے سامنے جھکنے کی ویڈیو گواہی سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس آصف کھوسہ نے بلاک کر دی تھی۔ جج ملک بعد میں پراسرار حالات میں انتقال کر گئے۔ پانچواں کیس سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق ہے۔ اس سے تصدیق ہوتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ نواز شریف اور مریم کو ناک آؤٹ کرنے کے دباؤ ڈال رہی تھی۔ اس طرح کے مزید انکشافات کا امکان ہے۔ اپوزیشن نے پہلے ہی اپنے انصاف نواز بیانیے کو عوام تک لے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسے توقع ہے کہ عدلیہ اپنی کالی بھیڑوں سے دامن چھڑا کراپنی رہی سہی ساکھ بچانے، اور اسٹبلشمنٹ کے کنٹرول سے نکلنے کی کوشش کرے گی۔
ریاست کا چوتھا ستون میڈیا پہلے ہی عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف ہو چکا ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یہ سب کچھ محسوس کرتی ہے لیکن کئی وجوہات کی بنا پر آگے بڑھنے کا راستہ طے کرنے سے قاصر ہے۔ پی پی پی کو خدشہ ہے کہ اگر اسٹبلشمنٹ کی زیادہ مخالفت کی گئی تو آصف زرداری کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ پارٹی کو سندھ کے آخری گڑھ میں اقتدار سے ہٹا کر تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) دو بھائیوں کے مخالف سیاسی نقطہ نظر کے درمیان بٹی ہوئی ہے جنہیں الگ نہیں کیا جا سکتا حالانکہ ان کی مشترکہ جدوجہد اسے کمزور کرتی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے ابہام نے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی اور بددلی پھیلادی ہے۔
تاہم جلد ہی یہ ساری فضا بدلنے والی ہے۔ اس کے لیے حالات سازگار ہوچکے ہیں۔ یا تو معیشت اور ریاست کو سنبھالنے میں ہائبرڈ بندوبست کی ناکامی سے پیدا ہونے والا عوامی دباؤ اسٹبلشمنٹ اوریا عدلیہ کو آپشنز کا جائزہ لینے اور عمران خان کو ترک کرنے پر مجبور کر دے گا۔ یا پی ڈی ایم کو آخر کار اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے اور اسلام آباد کا محاصرہ کرنے کے لیے ایک سیاسی راستہ ملے گا۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ایک ایسے ممکنہ انقلابی لمحے میں جب عوام نوآبادیاتی دور کے اداروں کے نام نہاد تقدس کو جھٹک کر ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں، اپوزیشن اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں۔ بلکہ شاید وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتی۔ لوہا گرم ہے تو چوٹ لگانے میں تامل کیوں؟
نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔