جو آپ کی زبان پر ہے وہی دل میں ہو، اور جو دل میں ہے وہی زبان پر، یہ لگتا ہے اب پرانے وقتوں کی باتیں ہیں۔
مگر حالیہ دنوں کے کچھ واقعات نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ کچھ لوگ ان نئے اصولوں سے کبھی ہٹ بھی جاتے ہیں۔ مریم نواز شریف کی آڈیو لیک نے ایک بحث چھیڑ دی ہے حالانکہ بحث کرنے کے لئے زیادہ کچھ ہے نہیں۔ یہ آڈیو اچانک سوشل میڈیا پر آئی، جیسے اس طرح کی لیکس ہمیشہ آتی ہیں، اور بڑے ہی موقع پر آئی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک بڑی محنت سے سینچے گئے کچھ بیانیوں میں پنکچر کر رہی تھی جب مریم کی آڈیو لیک نے سامنے آ کر اپنی طرف توجہ مبذول کروائی۔ جو کہ اس کو مل بھی گئی۔ لیکن اس نے ایک سوال کھڑا کر دیا جس کا جواب دیتے ہوئے ہم میں سے زیادہ تر لوگ گھبرائیں گے۔
یہ گھبراہٹ سوال سے شروع ہو کر جواب میں سرایت کرتی ہے۔ اسی لئے اسے لفظوں کے پنجرے میں بند کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ ہر طرف موجود ہے اور سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ یہ سامنے کی چیزیں نظروں سے اوجھل کیوں رہتی ہیں۔ یہ تو جب آپ غیر مرئی نظر آنے والی چیز میں حقیقت کی آمیزش کرتے ہیں تو آپ پر کھلتا ہے کہ یہ دوئی جو بالکل سامنے ہوتے ہوئے بھی نظروں سے اوجھل رہتی ہے، کس قدر مضحکہ خیز ہے۔
اس آڈیو میں مریم نواز نے تسلیم کیا کہ وہ وہی کرتی رہی ہیں جو تمام حکومتوں نے کیا اور موجودہ حکومت بھی کر رہی ہوگی۔ لیکن جس کسی نے بھی سرکاری اشتہارات کو میڈیا پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا ہے، وہ تاثر یہی دیتا ہے جیسے اس نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ وہ کہتا کچھ ہے لیکن مطلب اس کا کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ وہ بھی ایسے ہی کرتی ہے۔ دونوں کو ہی اس دوغلے پن پر کچھ نہیں کہا جاتا جو کہ بالکل نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی اوجھل رہتا ہے۔
اور بھی بہت کچھ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے بیانیے کو اپنے مخالفین کی کرپشن کے نام پر چلاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کا یہ دو نمبر شربت پی بھی لیا ہے لیکن سمجھدار لوگ جانتے اور مانتے ہیں کہ اس وقت پنجاب میں ٹھیک ٹھاک کرپشن ہو رہی ہے۔ یہ کہانیاں افسانوی حیثیت اختیار کر چکی ہیں اور اعلیٰ عہدیدار تسلیم کرتے ہیں کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ان کی تفصیلات تحریکِ انصاف کی قیادت تک پہنچائی ہیں۔ لیکن وہی لوگ جو اس کرپشن کو تسلیم کرتے ہیں، اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، مائیک کے سامنے آتے ہیں تو مخالفین کی کرپشن پر وعظ شروع کر دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے تم کرپٹ ہو، وہ کہتی ہے نہیں، تم ہو۔ دونوں کو ہی اس دوغلے پن پر کچھ نہیں کہا جاتا جو بالکل واضح ہے۔
پھر احتساب کے نعرے کا سوال ہے۔ جب الزامات کو ثبوت اور بہتان کو گواہی بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تو مسئلہ تو ہوگا۔ لیکن شدید قسم کی لیکن سیاسی لڑائی میں اس مسئلے کو ایک ناپسندیدہ حقیقت کی طرح ایک طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم گناہ گار ہو، وہ کہتی ہے، نہیں، تم ہو۔ تفتیش کاروں کو ثبوت نہیں ملتا، وکلا کو قائل کر لینے والے دلائل کی کمی کا سامنا ہے اور جج ایسی حالات میں سزا نہیں دے سکتا۔ یا کبھی کبھی، اس کے باوجود دے بھی دیتا ہے۔ قانونی طریقہ کار کا تمسخر روزانہ اڑایا جاتا ہے، ایک ایسے بیہودہ انڈین ڈرامے کی طرح جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ وہ کہتا ہے، تم ولن ہو۔ وہ کہتی ہے، نہیں، تم ہو۔ لیکن دونوں کو ہی اس دوغلے پن پر کچھ نہیں کہا جاتا جو بالکل واضح ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں؟
یہ دوغلا پن، جسے آپ چاہیں تو منافقت بھی کہہ سکتے ہیں، ہماری سیاست میں اب ایک حقیقت کی طرح تسلیم کر لیا گیا ہے۔ دو نمبر سچ اور واقعتاً جھوٹ ایک ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ہم نے اس کو ایک نام تک دے دیا ہے: بیانیہ۔ تو اگر آپ ایک جھوٹ کو قابلِ احترام بنانا چاہتے ہیں، اسے بیانیہ کہنا شروع کر دیں۔ اگر آپ جھوٹ بولنا معتبر بنانا چاہتے ہیں، اسے بیانیہ کہہ دیں۔ اور اگر آپ منافقت کو قابلِ قبول بنانا چاہتے ہیں، تو اس کا نام بیانیہ رکھ دیں۔ بیانیہ سازوں کے لئے اخلاقیات کی یوں تکلیف دہ انداز میں دھجیاں اڑانا سیاسی لڑائی کے نام پر قابلِ تاویل ہوگا لیکن عام ووٹر کے لئے یہ حرکت بددیانتی، دوغلے پن اور دھوکہ دہی کو قابلِ قبول بنا دیتی ہے۔ وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے چاہے اسے خود بھی اس پر یقین نہ ہو، اور کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اور وہ بھی ایسا کر سکتی ہے اور کوئی اس کو بھی کچھ نہیں کہے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیوں؟
مکر کے اس کھیل میں تمام کھلاڑی اصولوں کے تحت ہی کھیلتے ہیں۔ یہ اصول کچھ قدغنیں عائد کرتے ہیں۔ یہ قدغنیں کھلاڑیوں کو کھیل خراب کرنے سے روکے رکھتی ہیں کہ کہیں ایسی صورتحال نہ پیدا ہو جائے کہ ان کا کھیل بند ہو جائے۔ وزرا جانتے ہیں کہ ان میں کون کون کرپٹ ہے لیکن وہ نشاندہی نہیں کریں گے اور نظام دوسری طرف منہ پھیر لے گا۔ ان کے مخالفین اپنے خود کے قرار دیے گئے نیک مقصد کے لئے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالیں گے اور جب ان سے سوال کیا جائے گا تو مظلوم بنیں گے۔
وکلا اپنے ہاتھوں سے قانون اپنے ہاتھوں میں لیں گے لیکن ان کو کچھ کہا نہیں جائے گا کیونکہ نظام کی تربیت کچھ اس انداز میں ہوئی ہے کہ وہ کہیں اور ہی دیکھتا رہتا ہے۔ جج بھی ۔۔۔ ان کے بارے میں تو خیر نظام ہمیں اجازت ہی نہیں دیتا کہ کہہ سکیں یہ کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے۔
اسٹیبلشمنٹ ظاہر کرتی ہے جیسے ریاست اور حکمراں جماعت کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا کردار ہے اور ضرورت سے زیادہ ہے۔ لیکن کون ان پر انگلی اٹھائے؟
اور صحافی؟ پاکستان کے کھلے رازوں میں سے جو سب سے کھلا راز ہے وہ یہی ہے کہ بڑی تعداد میں صحافیوں کو ساتھ ملا لیا گیا ہے۔ کس کو نہیں معلوم کہ کون سا میڈیا ہاؤس کس سیاسی جماعت کا بھونپو ہے اور کون سا صحافی کس قماش کا سچ سامنے لاتا ہے؟ کس کو نہیں معلوم کہ کون سا میڈیا مالک عہدیداروں سے کس قسم کی 'سہولیات' لیتا ہے تاکہ بڑی معصومیت سے اپنی ساکھ کا بھرم رکھ سکے؟ وہ کہتا ہے میں سب سے نیک ہوں، وہ کہتی ہے، نہیں، میں ہوں۔ دونوں کو ہی اس دوغلے پن پر کچھ نہیں کہا جاتا جو بالکل واضح ہے۔
نتائج افسوس ناک ہیں۔ سچ اپنے بولنے والے کے زاویۂ نگاہ کا محتاج ہے۔ اقدار اور قوانین کو من مرضی کے مطابق توڑا مروڑا جا رہا ہے۔ صحیح اور غلط کے پیمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ اور یہ سب کچھ اس نظام کے لئے قابلِ قبول بن چکا ہے جو وفاداری کو میرٹ اور شراکت داری کو ساکھ پر ترجیح دیتا ہے۔ ہم بتدریج پھسل رہے ہیں۔ ایک ایک انچ کر کے ہم اس دستاویز میں دیے گئے ایمانداری کے پیمانوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں جس کی بنیاد پر یہ نظام چل رہا ہے۔ منافقت کی کیف سے ایک ایک قطرہ کر کے سڑنے کا عمل جاری ہے جب کہ کھلاڑی اپنی چھوٹی چھوٹی فتوحات کے لئے سازشیں جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے عوض وہ بہت کچھ ہار بھی رہے ہوتے ہیں۔
وہ کہتا ہے میں محب وطن ہوں۔ وہ کہتی ہے، نہیں، میں ہوں۔ اور اسی اثنا میں یہ دونوں ان ستونوں پر کلہاڑی چلاتے جاتے ہیں جن کے بل پر ہم کھڑے ہیں۔
فہد حسین کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔