شیخ صاحب، آپ احکامات کی تکمیل کرنے کے پابند ہوں گے، عوام نہیں

شیخ صاحب، آپ احکامات کی تکمیل کرنے کے پابند ہوں گے، عوام نہیں
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ بات اب ڈائیلاگ سے بڑھ گئی ہے، جو پل کا کردار ادا کرنے کا وقت تھا وہ بھی ختم ہوگیا ہے۔جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اب نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ مذاکرات فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی اور اے این پی سے کیے جا سکتے ہیں لیکن ن لیگ کے ساتھ مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

شیخ رشید کا یہ کہنا کہ مسلم لیگ نواز کے ساتھ تو بات چیت کا امکان نہیں لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت ممکن ہے، انتہائی معنی خیز ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی ساری جماعتیں معنی کے لحاظ سے ایک ہی بات مسلسل کر رہی ہیں۔ ان کے بیانیے کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ فوج کی پاکستانی سیاست میں مداخلت ختم ہونی چاہیے اور وہ سمجھتی ہیں کہ موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ہوئے 2018 انتخابات میں دھاندلی کے بغیر اقتدار میں نہیں آ سکتی تھی۔ تو پھر مسلم لیگ نواز سے بات چیت نہ کرنے اور پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے بات کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کرنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ انہوں نے اپنے دبنگ انداز میں یہ تک کہہ ڈالا کہ فضل الرحمٰن کو سینیٹ انتخابات میں ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں وہ کھلے عام مولانا فضل الرحمٰن کو سینیٹ انتخابات میں چند سیٹوں کی رشوت کی پیشکش کر رہے تھے اور بدلے میں ان کی خواہش ظاہر ہے کہ یہی ہوگی کہ وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کو اکیلا چھوڑ دیں۔ پیپلز پارٹی سے بھی غالباً وہ گلگت بلتستان الیکشن ہی کی بات کر رہے ہیں جو تین ہفتے میں ہونے جا رہے ہیں اور آج کل بلاول بھٹو زرداری وہاں بہت بڑے بڑے جلسوں سے خطاب بھی کر رہے ہیں۔

تاہم، شیخ رشید یا پاکستان تحریک انصاف دونوں ہی معاملات میں فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی کو کچھ نہیں دے سکتے۔ گلگت بلتستان انتخابات میں تحریک انصاف اپنے امیدوار کی جگہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی مہم تو چلانے سے رہی۔ اور فضل الرحمٰن کے کسی امیدوار کو بھی عمران خان صاحب اپنی جماعت کے کسی رکن سے خود سے ووٹ دلوا کر سینیٹ میں منتخب نہیں کروائیں گے۔ یوں دیکھا جائے تو شیخ رشید صاحب بھی یہاں خود کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور یہ انہوں نے واضح انداز میں کہہ بھی دیا جب شاہزیب خانزادہ نے ان سے پوچھا کہ یہ ن لیگ کو علیحدہ کرنے کے لئے ان دونوں جماعتوں سے بات چیت کرے گا کون تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو سب کچھ پتہ ہے۔ یہاں دراصل شیخ رشید بھی وہی بات کر رہے ہیں جو نواز شریف بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ انہیں غدار بھی ثابت کرنے پر مصر ہیں۔

نواز شریف نے اپنی حالیہ تقاریر میں اسٹیبلشمنٹ کے پاکستانی سیاست میں کردار پر کھل کر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے نام لے کر فوجی افسران پر الزامات لگائے ہیں کہ وہ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں۔ کوئٹہ جلسے میں انہوں نے ایک اعلیٰ افسر کا خصوصی طور پر ذکر کیا جس کے بعد ہی شیخ رشید نے یہ اعلان ٹی وی پر آ کر کیا ہے کہ مسلم لیگ نواز کی اب کوئی سیاست باقی نہیں رہے گی اور اس تقریر کے بعد مریم اور نواز شریف کی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

نواز شریف کے بیانیے کی تصدیق کرتے ہوئے اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کی سیاست ختم ہو گئی ہے تو وہ صریحاً غلطی پر ہیں۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام کئی دہائیوں سے اشاروں کنایوں میں باتیں کرنے اور باتیں کرنے والوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ اب فیصلہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں آخر ہونا کیا ہے۔ یہاں کوئی اصول، قانون، ضابطہ ہے یا بس چند افراد کے ذہنوں میں جو فارمولہ چل رہا ہوگا، وہی سب کو تسلیم کرنا ہوگا خواہ وہ صحیح ہو یا غلط؟ کیا پاکستان کے عوام کوئی بھیڑ بکریاں ہیں کہ انہیں جس طرف چاہے ہانک دیا جائے؟ ان کے منہ پر ان کی تذلیل کی جائے کہ فلاں کو سینیٹ میں ایڈجسٹ کر دیتے ہیں، فلاں کو گلگت میں سیٹیں دے دیں گے، اور فلاں سے بات نہیں کریں گے، اور آپ سمجھتے ہیں کہ عوام آپ کی یہ رشوتوں کی پیشکش دیکھتے ہوئے بھی یہ سمجھیں گے نہیں کہ اصل معاملہ کیا ہے؟

شیخ رشید کی ساری زندگی خود کو پنڈی کا نمائندہ ثابت کرنے میں گزر گئی اور اب بھی انہیں پنڈی ہی سے الیکشن جیتنے کے لئے ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں۔ ان کے مخالفین کو انتخابات سے دو روز قبل آدھی رات تک عدالت لگا کر جیل نہ بھیجا جائے تو وہ اپنی سیٹ سے بھی شاید نہ جیت پائیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کی نبض پر ان کا کتنا ہاتھ ہے۔ تو جب وہ یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص یا فلاں جماعت کی سیاست ختم ہونے جا رہی ہے تو وہ کوئی سیاسی تجزیہ نہیں کر رہے بلکہ چند افراد کی خواہشات کو عوام تک پہنچا رہے ہیں۔

لیکن کیا کیجئے کہ سیاست میں کوئی خواہ کتنا ہی طاقتور ہو، بالآخر بات عوام پر جا کر ہی ٹھہرتی ہے۔ عوام کیا سننا چاہتی ہے اس کا اندازہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام کی تعداد اور ان تقاریر پر ان کے رد عمل سے لگایا جا سکتا ہے۔ شیخ صاحب کے خیال میں عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور جو فیصلہ پنڈی میں ہو جاتا ہے، پورا پنجاب اس کو مان لیتا ہے۔ ان کی خدمت میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ نواز شریف کی سیاست کا تو جو ہوگا سو ہوگا، عوام کسی کے احکامات کے پابند نہیں۔ وہ وہی فیصلہ کریں گے جو انہیں درست لگے گا اور کسی کی خواہشات کی تکمیل آپ کے لئے اہمیت رکھ سکتی ہے، عوام اپنا فیصلہ خود کرتے ہیں۔

ستر سال سے اس ملک کی تقدیر حکمران طبقے کی خواہشات کے مطابق موم کی ناک کی طرح کسی بھی طرف کو موڑ دی جاتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک نظام پر سب کا اتفاق ہو اور اس نظام کے تحت ہی ملک کو چلایا جائے۔ تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں۔ یہ ملک اب مزید شخصیات کی ذاتی انا اور مفادات کی بھینٹ چڑھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں رانا ثنااللہ اور فواد چودھری نے ادارہ جاتی ڈائیلاگ پر اتفاق کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے ہی معاملات حل کرنے چاہئیں۔ سہیل وڑائچ کے الفاظ میں، کسی نے اس ملک کو فتح نہیں کیا، نہ ہی یہاں کوئی مفتوح ہے۔ فاتح اور مفتوح کے انداز میں ملک کو چلانے کی کوشش کی جائے گی تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.