پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اندر خانے حکومتی امدادی رویئے جسے سیاسی طور پر انکی اوقات کہا جا رہا ہے، سے حکومت نے خفیہ طور پر مولانا فضل الرحمن کو آگاہ کر دیا جس سے جے یو آئی (ف) کی اعلیٰ قیادت ان دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں سے شدید بدظن ہوگئی اور یوں حکومت سمیت موجودہ سیٹ اپ کے خلاف عید کے بعد منعقد ہونے جارہی اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس انعقاد سے پہلے ہی تتر بتر ہوتی دکھائی دینے لگی ہے۔
ذرائع کے مطابق ہفتہ بھر قبل جب حکومت کو FATF سے متعلق درکار قانون سازی کے سلسلے میں 2 اھم بلز پاس کروانے کی غرض سے پارلیمنٹ ، بالخصوص سینیٹ میں "نون" لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے تعاون کی ضرورت تھی ، سپیکر قومی اسمبلی کے گھر پر ان دونوں جماعتوں کے پارلیمانی نمائندوں کے ساتھ خفیہ مذاکرات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں سپیکر اسد قیصر نے خود پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (نواز) کے صدر ، اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے ذاتی طور پر فون پر رابطہ کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے ان خفیہ مذاکرات میں حصہ لینے کے حوالے سے تو کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا اور پارلیمانی لیڈر بلاول بھٹو نے اپنی پارٹی کے جن ارکان پارلیمنٹ کو نامزد کیا انہیں بلا لیا گیا لیکن "نون لیگ" کی نمائندگی کے حوالے سے اس وقت سخت مشکل صورتحال پیدا ہوگئی جب پارٹی کے شہبازشریف گروپ اور مریم نواز گروپ سے تعلق رکھنے والے 2 مرکزی رہنماؤں نے بیک وقت اپنی پارٹی کے نمائندہ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق خفیہ مذاکرات سے قبل سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطے میں قومی اسمبلی میں قائمقام اپوزیشن لیڈر اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت.، مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے کہا "مسلم لیگ "نون" کا نمائندہ میں ہوں لہٰذا میں ہی ان مذاکرات میں شامل ہوں گا" جبکہ شاہد خاقان عباسی اور سپیکر قومی اسمبلی کے ٹیلیفونک رابطے میں سابق وزیراعظم نے دوٹوک کہا "ان مذاکرات میں پارٹی کی نمائندگی میں کروں گا" جس پر سپیکر اسد قیصر اپنے گھر پر ہونے جارہی خفیہ بات چیت میں حصہ لینے کے لئے" نون لیگ " کو بلانے کے حوالے سے مشکل میں پڑگئے۔
صورتحال کو دیکھتے ہوئے پارٹی صدر شہبازشریف سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ بھی مسئلہ فوری حل نہیں کر پائے . سپیکر اسد قیصر نے جب فون پر شہباز شریف سے رابطہ کر کے ساری صورتحال بتائی کہ" نون" لیگ کی طرف سے بیک وقت 2 مرکزی رہنما پارلیمنٹ میں نمائندہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں لہٰذا وہی بتائیں کہ خفیہ مذاکرات کے لئے کسے بلایا جائے تو ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے سپیکر اسد قیصر سے جواب میں کہا "آپ مجھے 15 منٹ دیں ، میں آپ کو بتاتا ہوں" ذرائع کے مطابق اس دوران شہبازشریف نے لندن میں بڑے بھائی اور پارٹی قائد سے فوری فون پر رابطہ کرکے صورتحال سے انہیں آگاہ کیا اور پوچھا "مجھے بتائیں میں کس کا نام دوں؟" تو شہباز شریف نے سپیکر قومی اسمبلی سے دوبارہ رابطہ ہونے پر نواز شریف کی ہدائت پر رانا ثناء اللہ کا نام دیا
'ایف اے ٹی ایف' کے اطمینان کے لئے درکار 2 اہم بل پارلیمنٹ سے منظور کرواتے ہی حکومت نے یہ یہ ساری تفصیل کسی طرح اپوزیشن کی مجوزہ اے پی سی کے محرک و میزبان مولانا فضل الرحمن تک پہنچا دی کہ جن 2 بڑی اپوزیشن جماعتوں پر وہ حکومت مخالف ای پی سی بلانے اور تحریک چلانے کے لئے "آسرا" کر رہے ہیں وہ حکومت کے ساتھ اپنی اپنی خفیہ ڈیل کے لئے کس قدر بےچین ہیں ، جسے سن کر مولانا فضل الرحمٰن سمیت جے یو آئی (ف) کی ساری قیادت سکتے میں آ گئی۔
وہ اتنا غصے میں ہے کہ وفاقی وزیر مراد سعید کی تقریر کے دوران جب پیپلز پارٹی اور "نون لیگ" کے اراکین قومی اسمبلی میں شور مچارہے تھے اور سپیکر نے ہنگامہ آرائی نہ رکنے پر اپنی وارننگ کے مطابق جب اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردینے کا اعلان کیا تو جے یو آئی (ف) کے ارکان نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کو پشتو میں گالیاں دینا شروع کردیں کہ ان کے رویہ کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوگیا اور جے یو آئی والے ایوان سے خطاب ہی نہیں کر پائے۔ تاہم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اراکین سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے اس بابت تصدیق کرنے سے انکار کیا لیکن جے یو آئی ایف کی ناراضی کی تصدیق ضرور کی۔