'قطری آبدوز پروگرام کی جاسوسی، اسرائیل کو خدشہ تھا ٹیکنالوجی پاکستان نہ پہنچ جائے'

بھارتی ایجنسیاں جاسوس اہلکاروں کو مسلسل مدد فرہم کرتی رہیں جبکہ جاسوس اہلکار سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس آبدوزیں بنانے جیسے ایک حساس نوعیت کے منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ یہ ایسی ٹیکنالوجی ہوتی ہے جس سے لیس جہاز یا آبدوز کو ریڈار پر ٹریک نہیں کیا جا سکتا۔

'قطری آبدوز پروگرام کی جاسوسی، اسرائیل کو خدشہ تھا ٹیکنالوجی پاکستان نہ پہنچ جائے'

قطر کی عدالت نے بھارتی بحریہ کے 8 سابق اہلکاروں کو ' سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس آبدوز پروگرام' سے متعلق اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا جرم ثابت ہونے کے بعد سزائے موت سنا دی۔ اسرائیل کو قطر کے آبدوز پروگرام میں بہت دلچسپی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ خطے اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں کوئی ملک اس ٹیکنالوجی کو حاصل کر لے جو اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث ہو۔ بھارتی ایجنسیاں اسرائیل کے لیے جاسوسی پر مامور اہلکاروں کو مسلسل مدد فراہم کرتی رہیں۔ بھارت اور اسرائیل کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ قطر یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں پاکستان کو بھی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف نے۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ بھارتی بحریہ کے سابق اہلکاروں کو اگست 2022 میں قطر کے خلاف اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام پر گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا تھا جس کے بعد اُن کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز ہوا اور اس دوران گرفتار اہلکاروں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا مکمل موقع فراہم کیا گیا۔ اس حوالے سے مکمل چارج شیٹ تو منظر عام پر نہیں لائی گئی تاہم اب قطری عدالت کی جانب سے بھارتی نیوی کے 8 سابق اہلکاروں کو آبدوز پروگرام پر جاسوسی کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ افسران کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے کی بھارتی وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

سزا پانے والے ریٹائرڈ بھارتی نیوی افسران قطر کی ایک پرائیویٹ کمپنی داہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی سروسز میں ملازمت کر رہے تھے۔ یہ کمپنی قطر کی دفاعی اور سکیورٹی ایجنسیوں کو تربیت اور دیگر سروسز فراہم کرتی ہے۔ بھارتی جاسوس فوجی اہلکاروں میں کیپٹن نوتیج سنگھ گل، برندرہ کمار ورما، سورابھ وشست، کمانڈر امت نگپال، پریندو تواری، سگناکر پکالا، سنجیو گپتا اور ملاح راجیش شامل ہیں۔

مئی 2023 میں داہرا گلوبل ٹیکنالوجیز کو بند کر دیا گیا تھا جس میں بھارتی بحریہ کے 75 کے قریب سابق اہلکار کام کر رہے تھے۔ اس کمپنی کے سی ای او اومان کے شہری تھے۔

بھارتی ایجنسیاں جاسوس اہلکاروں کو مسلسل مدد فرہم کرتی رہیں جبکہ جاسوس اہلکار سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس آبدوزیں بنانے جیسے ایک حساس نوعیت کے منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ یہ ایسی ٹیکنالوجی ہوتی ہے جس سے لیس جہاز یا آبدوز کو ریڈار پر ٹریک نہیں کیا جا سکتا۔ قطر نے 2020 میں اٹلی کی جہاز بنانے والی کمپنی فنکینٹیئری ایس پی اے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے اور اسی اشتراک سے ان آبدوزوں پر کام ہو رہا تھا۔ صحافی نے بتایا کہ اگر یہ اہلکار بھارت کے لیے جاسوسی کر رہے ہوتے تو سمجھ بھی آتا لیکن اسرائیل کے لیے جاسوسی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے دفاعی، سکیورٹی اور سٹریٹجک تعلقات بہت گہرے ہیں۔ بہت سے بھارتی میڈیا چینلز اس وقت اسرائیل میں موجود ہیں جو اسرائیلی پروپیگنڈے کو ترویج دے رہے ہیں۔ جو کچھ بھی اس وقت فلسطین اور غزہ میں ہو رہا ہے اس پر بھارت اسرائیل کا حمایتی بنا ہوا ہے۔ حکمران جماعت بی جے پی کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے۔

صرف قطر کا سرکاری چینل الجزیرہ حقائق پر مبنی رپورٹنگ کر رہا ہے اور مغرب اور اسرائیل کے حمایتی ممالک کو بے نقاب کر رہا ہے۔ امریکہ کو اس بات سے بہت تکلیف ہے اور حال ہی میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے قظر کے امیر سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ وہ الجزیرہ پر زور دیں کہ وہ اینٹی اسرائیل پروپیگنڈے کو بند کریں۔ حالانکہ الجزیرہ ایسا چینل ہے جو فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے جاری مظالم کو حقائق کے ساتھ بتا رہا ہے۔ جہاں مغربی میڈیا فلسطین پر جاری حملوں کی صحیح طریقے سے رپورٹنگ نہیں کر رہا وہیں الجزیرہ نے اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک کو بے نقاب کر دیا ہے۔

اسی لیے اسرائیل کو قطر کے آبدوز پروگرام میں بہت دلچسپی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ خطے میں خصوصی طور پر مشرق وسطیٰ میں کوئی ملک اس ٹیکنالوجی کو حاصل کر لے جو اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث ہو۔ اس کے علاوہ بھارت اور اسرائیل کو اس بات کی بھی تشویش تھی کہ اگر قطر نے سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس آبدوزیں بنا لیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی پاکستان کو بھی فراہم کریں کیونکہ پاکستان اور قطر کے بہت گہرے دفاعی اور سٹریٹجک تعلقات ہیں۔

جب اگست میں ان 8 سابق بھارتی نیوی افسران کو قطر میں گرفتار کیا گیا تو اس پر پاکستان کی جانب سے بیان سامنے آیا تھا کہ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ بھارتی اہلکار جاسوسی میں ملوث پائے گئے ہیں کیونکہ پاکستان کے پاس ہندوستانی حاضر سروس نیول آفیسر کلبوشن یادیو کی مثال موجود ہے جسے 2016 میں رنگے ہاتھوں گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تب بھارت کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، پاکستان اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ لیکن اب ان اہلکاروں کو سزا سنائے جانے سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ افسران جاسوسی کر رہے تھے۔

بھارتی حکومت نے اس فیصلے پر انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ اس کیس کو نہایت اہم سمجھتے ہیں اور عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد قطری حکام کے سامنے اس فیصلے کو اٹھائیں گے۔

نئی دہلی کو 8 قیدیوں تک قونصلر رسائی حاصل ہے اور ان کی رہائی کی کوششیں کی گئی تھیں لیکن دوحہ کی جانب سے بتایا گیا کہ ثبوت سے واضح ہوتا ہے کہ سابق افسران نے اسرائیل کو معلومات فراہم کی ہیں۔

ایک موقع پر قطری حکام کی جانب سے کمپنی کے سی ای او کو بھی دو ماہ کے لیے گرفتار کر کے قید میں رکھا گیا کیوںکہ ان کی جانب سے اپنے ملازمین کی رہائی کے لیے کافی کوشش کی جا رہی تھی۔

صحافی نے کہا کہ بھارت کے لیے یہ یقینی طور پر بہت بڑی شرمندگی ہے۔ بھارت کے جاسوسی کے نیٹ ورک پر دنیا بھر میں ایک عرصے سے تشویش پائی جا رہی ہے۔ کینیڈا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں انڈین انٹیلی جنس ایجنسیز کے کرائے کے قاتل سکھ لیڈرز کو قتل کرتے ہوئے بھی رنگے ہاتھوں پکڑے جا چکے ہیں۔ حال ہی میں کینیڈا کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات میں کشیدگی آئی ہے۔ یہی وجہ سے کہ بھارت اس معاملے کا بہت زیادہ پرچار نہیں کر رہا کیونکہ اس کو جتنا اچھالیں گے اتنا ہی ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہو گا۔ بھارت کی جانب سے بھرپور کوشش کی گئی تاہم اس معاملے پر کوئی ریلیف ملنے کا امکان نہیں ہے۔