تحریک لبیک اور ٹی ٹی پی کی مانند پی ٹی آئی کو بھی عام معافی ملنی چاہئیے

شیخ رشید نے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے لیے جو عام معافی کا مطالبہ کیا ہے وہ بہت بڑی بات ہے۔ شیخ رشید نے وہ بات کی ہے جو پاکستان کی ہئیت مقتدرہ، کسی عدالت، انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے کسی نام لیوا نے نہیں کی۔ وہ اس سلسلے میں سپہ سالار سے ملاقات کرنے اور ان سے بھی درخواست کرنے کا اظہار کر چکے ہیں۔

تحریک لبیک اور ٹی ٹی پی کی مانند پی ٹی آئی کو بھی عام معافی ملنی چاہئیے

9 مئی کے بعد قومی سیاست کا رخ تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف جو اس وقت چاروں صوبوں، کشمیر اور گلگت بلتستان میں نا صرف اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ مقبول عام بھی ہے۔ اس کے ساتھ ریاست نے سوتیلی ماں جیسا سلوک رکھا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے اب بھی 10 ہزار کے لگ بھگ سیاسی کارکن اور رہنما پابند سلاسل ہیں بلکہ بدترین ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ جو بھی سیاسی کارکن یا رہنما تحریک انصاف سے اعلان لاتعلقی کر دے، کسی پریس کلب میں پریس کانفرنس کر کے یا پھر کسی بھی نیوز چنیل کے ٹاک شو میں شرکت کر کے انٹرویو دے کر اعلان لاتعلقی کر دے، اس کی جان بخشی ہو جاتی ہے۔ چاہے وہ 9 مئی والے روز کسی بھی بلوے میں کیوں نہ ملوث ہو۔

ہماری ہئیت مقتدرہ ایک بے رحم ناگن کی طرح اپنے ہی بچوں کو ڈسنے میں مبتلا ہے مگر اس کی پیاس نہیں بجھ رہی۔ سب سے افسوس ناک رویہ ہماری سول سوسائٹی، انسانی حقوق، اور حقوق نسواں کے علم بردار اجباب اور خواتین کا ہے جو سیاسی کارکنوں پر برپا بدترین ریاستی جبر کے خلاف کوئی احتجاج یا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ صرف خانہ پری کے لیے ایک پریس ریلیز جاری کر رہے ہیں، بلکہ کچھ انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی تنظیموں کو تو دو لفظ بولنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ بُغض عمران خان کی انتہا بھی چشم فلک نے دیکھ لی ہے۔

تحریک انصاف کی خواتین کارکنوں کے ساتھ جو ظلم عظیم برپا ہے وہ بھی عیاں ہے مگر اس پر نہ آسمان گرا اور نہ زمین پھٹی بلکہ سول سوسائٹی کی خواتین نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ خدیجہ شاہ، صنم جاوید، طیبہ راجہ اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب مورخ لکھ رہا ہے اور آنے والے دور میں نئی نسل ان مکروہ کرداروں اور خاموش تماشائیوں کو ضرور بے نقاب کرے گی۔

وطن عزیز کے عدالتی نظام کی اس قدر بے توقیری بھی کبھی کسی نے اس سے پہلے دیکھی اور نہ سنی ہو گی۔ اب تو صرف سر اٹھا کر آسمان کی طرف ہی دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ زمین کے خداؤں نے تو اپنا آپ دکھا دیا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں مختلف ٹی وی چینلز پر کچھ اینکر پرسن کے ساتھ انٹرویو کے بعد جن سیاست کاروں نے تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کر کے اپنی جان بخشی کروائی ہے ان سے سب سے زیادہ وضع داری اور مروت کا مظاہرہ شیخ رشید احمد نے کیا۔ اگرچہ وہ تحریک انصاف کا حصہ بھی نہیں تھے بلکہ اپنی الگ سیاسی جماعت اور انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑ کر اور جیت کر قومی اسمبلی کا حصہ بنے تھے۔ انہوں نے عمران خان پر کوئی ذاتی تنقید نہیں کی۔ کچھ سیاسی غلطیاں ضرور بیان کی ہیں جو کہ ٹھیک بھی تھیں۔

شیخ رشید نے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے لیے جو عام معافی کا مطالبہ کیا ہے وہ بہت بڑی بات ہے۔ شیخ رشید نے وہ بات کی ہے جو پاکستان کی ہئیت مقتدرہ، کسی عدالت، انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے کسی نام لیوا نے نہیں کی۔ وہ اس سلسلے میں سپہ سالار سے ملاقات کرنے اور ان سے بھی درخواست کرنے کا اظہار کر چکے ہیں۔ میں نہیں جانتا شیخ رشید احمد کو اس میں کامیابی ملے گی یا نہیں، تاہم ان کی اس اخلاقی جرات کی تحسین کرنی چاہئیے۔ کوئی تو ہے جو ریاست کو جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یاد رکھیں کسی بھی ریاست کے لیے سب سے اہم بات اس کے شہری ہوتے ہیں۔ پتھر، ریت اور سیمنٹ کی بنی ہوئی عمارتیں ثانوی ہوتی ہیں۔ ریاست کو اپنے شہریوں سے زیادہ عزیز کوئی نہیں ہونا چاہئیے۔

سپہ سالار کو بھی بڑے دل اور بڑے ظرف کا مظاہرہ کر کے 9 مئی کے ملزمان کے لیے عام معافی کا اعلان کر دینا چاہئیے۔ جب ریاست تحریک لبیک اور تحریک طالبان کے لیے یہ سب ماضی میں کر سکتی ہے تو تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کا کیا قصور ہے؟ سپہ سالار صرف تاریخ آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ریاست کو ماں بننا ہے یا ڈائن، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ شفاف انتخابات ہی واحد حل ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔