ٹرانس جینڈر افراد کے مسائل کی نزاکت کا ادراک، اس کے متعلق عوامی شعور کی بیداری اور ٹرانس جینڈرز کی حمایت و معاونت بنیادی طور پر ایک کثیر التخصیصی (ملٹی ڈسپلنری) طبی معاملہ ہے۔
جنس بمقابلہ صنف:
جنس یعنی سیکس صرف ایک جسمانی ساخت کا نام ہے جسے ہم مرد یا عورت میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ عموماً اس کا تعین پیدائش کے وقت ہی ہو جاتا ہے۔ صنف یا جینڈر معاشرے کی اپنی تعمیر کردہ درجہ بندی ہے جس میں رویوں اور خصائص کو مردانہ یا زنانہ خانوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ کسی شخص کی صنفی شناخت کا دارومدار اس کی اپنے بارے میں ذاتی اور اندرونی سوچ پر ہوتا ہے۔ کبھی کبھار یہ شناخت بوقت پیدائش جنسی تعین سے مختلف ہوسکتی ہے۔
فرد خود کو مرد، عورت، بلا صنف یا دونوں اصناف کے درمیان واقع نان بائنری سمجھ سکتا ہے۔
مرد اور عورت کیسے وجود میں آتے ہیں!
تحریر شدہ تاریخ کے ہزاروں سال انسان یہ جاننے سے قاصر رہا کہ آخر ماں کی کوکھ میں پلتا بچہ لڑکا یا لڑکی کیسے بن جاتا ہے۔ بڑے بڑے دانشور اور فلسفی اپنی طرف سے اندھیرے میں تیر ہی چلاتے رہے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ بچے کے باپ کے جسم میں گرمی کی مقدار سے بچے کی جنس متعین ہوجاتی ہے۔ یونانی طب میں حرارت غریزی اسی کا نام ہے۔ کچھ لوگوں نے مخصوص غذا کے استعمال کو اس معاملے سے جوڑ دیا۔ پاکستان میں روحانی علاج کے ایک بہت بڑے ماہر خواجہ شمس الدین عظیمی ہوا کرتے تھے۔ ان سے جب کوئی سائل اولاد نرینہ کی خواہش کا اظہار کرتا تو وہ بڑے اعتماد سے ماں بننے والی عورت کو کھانے میں زیادہ سے زیادہ کرم کلّا یعنی بند گوبھی کے استعمال کی تجویز دیا کرتے۔ ایک تھیوری یہ بھی تھی کہ ماحولیاتی اثرات بچے کی جنس متعین کرتے ہیں۔
اس سربستہ راز پر سے پردہ بالآخر جینیات کے علم نے ہٹایا جس کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں ہوا۔ 1960 تک آتے آتے ہمیں یہ پتہ چل گیا تھا کہ جسم کے ہر خلیے کے مرکزہ میں خزانے کا ایک پیچیدہ نقشہ پوشیدہ ہوتا ہے جس میں کروموسوم نامی پروٹین کے 23 جوڑے بنے ہوتے ہیں۔ بس انہی میں سے ایک جوڑے میں اگر دونوں x کروموسوم ہوں تو عرصہء حمل کے اختتام پر مادہ یعنی بچی جنم پاتی ہے جبکہ اگر ایک x اور ایک y کروموسوم ہو تو اولاد نرینہ سے سرفرازی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ ان x اور y کروموسوم کا ان مسٹر ایکس اور مسٹر وائی سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں جنہیں عمران خان اپنی تقریروں میں للکارا کرتے ہیں۔
رحم مادر میں صنفی تعمیر:
جب موافق حالات میسر ہوں تو مردانہ نطفے اور زنانہ بیضہ کے ملاپ سے ایک دو خلیاتی حیات تشکیل پاتی ہے جو پھر نو ماہ مختلف نشیب و فراز سے گزر کر ایک یا ایک سے زائد نومولود بچوں کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ دو خلیاتی حیات کی پیدائش کے کئی ہفتے بعد تک ہم سب ایک عورت ہی رہتے ہیں تا آنکہ پانچویں چھٹے ہفتے کے دوران y کروموسوم کھل کر اپنا اظہار نہیں کرتا۔ اس طلسم ہوشربا میں آزادیء اظہار بہت اہم ہے۔ y کروموسوم ایک دفعہ یہ ہمت کر لے تو پھر مزید بے حجاب ہوکر ہارمونوں سے چھیڑ خانی شروع کردیتا ہے۔ یہ زنانہ ہارمون یعنی ایسٹروجن کی آمد پر قدغن لگاتا ہے اور مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کو شہہ دیتا ہے۔
اگر دونوں کروموسوم x ہوں تو پھر ایسٹروجن جو بدن مادر کا غالب ہارمون ہے، کا افراز جاری و ساری رہتا ہے۔ ان ہارمونوں کی بجائی ہوئی ہارمونیم سے ننھے جنین کے تن ناتواں پر زنانہ یا مردانہ جنسی اعضا کی ابتدائی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ اگر آپ بالغ ہیں اور ہر دو جنسوں کی جسمانی ساخت سے اچھی طرح واقف ہیں تو یقیناً ان میں موجود حیران کن مشابہت کے بارے میں سوچ کر اپنی نشست سے اچھل پڑیں گے۔ استقرار حمل کے نویں ہفتے تک بیضہ دانی اور خصیے یکساں ہوتے ہیں۔ جب تک ہماری ماؤں کا حمل بارہویں ہفتے میں داخل ہوتا ہے، ہمارے جسموں میں ننھی سی بیضہ دانی اور اس میں بیضے یا نطفہ بنانے کی مشین خصیے وجود میں آچکے ہوتے ہیں۔ کچھ انسانوں میں یہ دونوں یونٹ بھی ہوسکتے ہیں جبکہ کچھ ان سے مکمل طور پرمحروم ہوتے ہیں۔ ایک لمحے کو سوچیں کہ اگر اس سازینے کا ردھم ذرا سا اوپر نیچے ہوجائے تو کیا ہو۔ کون سا پیدائشی نقص ہے جو انسان میں نہیں ہو سکتا۔ مہذب اور ترقی یافتہ انسان اب انہیں نقائص نہیں بلکہ تحائف کہتے ہیں۔ ڈاکٹری پڑھنے والے بچے خواہ ان کا تعلق جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم جمعیت سے بھی ہو، ان کو بھی یہ تمام معلومات ایم بی بی ایس کے پہلے سال میں ایمبریالوجی کے مضمون میں اچھی طرح سمجھ لینی ہوتی ہیں۔ ورنہ تعلیمی سفر یہیں رک جاتا ہے۔
بچوں کی اینڈو کرائنالوجی:
پیدائش ہی سے ہماری نشوونما اور جنسی تشکیل میں خصوصی رطوبتیں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں جنہیں ہارمون کہتے ہیں۔ وہی دو حشر سامان افرازات، ٹیسٹوسٹیرون اور ایسٹروجن، جو قبل پیدائش کارگزاری دکھا چکے تھے، عنفوان شباب آتے ہی اچانک فعال ہو کر بغاوت کردیتے ہیں۔ اب بچی عورت اور بچہ مرد لگنے لگتا ہے۔ یہ معاملہ چائے میں چمچ سے چینی ڈالنے کی طرح سادہ نہیں بلکہ انتہائی پیچیدہ ہوتا ہے۔ ترتیب آگے پیچھے ہوجاتی ہے۔ اجزا خلط ملط ہو جاتے ہیں جیسے باورچی خانے میں کھیر پکاتے ہوئے شکر کی جگہ نمک کا چھڑکاؤ ہو جائے۔ کیا ہم میں سے کسی کے بھرے پرے گھرانے میں بہنوں کے چہرے پر ڈاڑھی یا بھائی کے سینے پر بھرپور پستان ہویدا نہیں ہوئے؟
علم نفسیات:
جس طرح انیسویں صدی کے اواخر میں ایمبریالوجی منکشف ہوئی، بعینہ اسی وقت ماہرین نفسیات نے صنفی شناخت کے معاملات کی گرہیں کھولنی شروع کیں۔ ایک سو سال تک صنفی تنوع کو نفسیاتی عارضہ سمجھا جاتا رہا۔ ایسے مریض کو کسی طرح واپس اصلی صنف کی طرف مبذول کرانے کی ترکیب کی جاتی رہی لیکن آگاہی بڑھتی رہی۔ 2018 میں رائل کالج آف سائیکاٹرسٹ نے اس معاملے پر ایک واضح پوزیشن اختیار کر کے اپنے تمام فارغ التحصیل ماہرین اور اس نظام کا حصہ میڈیکل کالجوں کو ٹرانس جینڈر افراد اور صنفی طور پر متنوع افراد کی مکمل نگہداشت اور سپورٹ کی ہدایت کر دی۔ کالج نے عالمی ادارہ صحت سے نفسیاتی امراض کی درجہ بندی سے اس کیفیت کو خارج کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔
ڈاکٹروں کا ضابطہ اخلاق اور صنفی تنوع:
برطانیہ میں ڈاکٹروں کے لائسنسنگ ادارے جنرل میڈیکل کاؤنسل، ٹریڈ یونین برطانوی میڈیکل ایسوسی ایشن اور تمام رائل کالجز نے صنفی تنوع کے لئے یکساں ہدایات جاری کر رکھی ہیں جن کے تحت ایسے افراد کو بلا عصبیت، بلا تاخیر اور اخفائے راز کے طبی اصولوں کے مطابق بہترین خدمات فراہم کرنی لازمی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر انہیں صنف تفویض کرنے والے مخصوص کلینک پر بھیجا جاسکتا ہے۔
صنف تفویض کرنے والے کلینک:
ان کلینکس پر مندرجہ ذیل ماہرین ایک چھت کے نیچے مل کر کام کرتے ہیں:
ماہرین نفسیات یعنی سائیکالوجسٹ
طبی ماہرین نفسیات یعنی سائیکاٹرسٹ
جینیاتی ماہرین
اینڈو کرائنالوجسٹ
ماہرین جراحت
ان ماہرین جراحت میں یورولوجسٹ اور جنرل سرجن جسم کی نچلی ساخت کی ترمیم کرنے اور اخراجی نظام کی درستگی پر دسترس رکھتے ہیں۔ بریسٹ سرجن قطع یا تعمیر پستان کرتے ہیں جبکہ کاسمیٹک سرجن چہرے کے زنانہ یا مردانہ خدو خال نمایاں کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔
قدامت پرستی، خاندانی اقدار اور ہم جنس پرستی:
جینیات کا علم لفظ ہم جنس پرستی کو رد کرتا ہے۔ ہم سب ایک سادہ سلیٹ کی طرح زندگی کی ابتدا کرتے ہیں۔ پھر جینز اور ہارمونوں کا تال میل کسی کو مرد، کسی کو عورت اور کسی کو تیسری جنس بنا دیتا ہے۔ انسان جس صنف میں کشش رکھتا ہے، وہ مخالف صنف ہوتی ہے۔ چاہے اس کا جسمانی اظہار مختلف دکھائی دے۔ اس لئے ہم جنس پرستی کا خوف غیر حقیقی ہے۔
قدامت پسند اقدار معاشروں کو استحکام بخشتی ہیں لیکن اگر انہیں ہر جدید فکر اور سماجی ترقی کی راہیں روکنے کے لئے استعمال کیا جائے تو وہ معاشرے سے خود بخود لاتعلق ہو کر اپنا جواز کھو بیٹھتی ہیں۔
انسانی بقا اور ارتقا میں خاندان کا ادارہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک مضبوط خاندان وہ ہوتا ہے جس میں وارد ہونے والا ہر بچہ اپنی تمام کیفیات، احساسات اور حوادث کا اظہار بلاخوف و شرم کرسکتا ہے۔ اس طرح ہم اپنے بچوں کو معاشرتی جبر، تعصب، استحصال، احساس کمتری، خود اذیتی اور خودکشی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔