عمران خان کی شمولیت کے بغیر انتخابات کا انعقاد درست فیصلہ ہو گا؟

کیا وہ سمجھتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات جو موجودہ مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور معاشی تباہی کی بنیادی وجہ ہیں، ان کا سارا ملبہ دوسروں پر ڈال کر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپناتے ہوئے عوامی ہمدردیاں حاصل کر کے سرخرو ہو جائیں گے؟

عمران خان کی شمولیت کے بغیر انتخابات کا انعقاد درست فیصلہ ہو گا؟

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے اس بیان پر کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی شمولیت کے بغیر بھی شفاف اور غیر جانبدار انتخابات ہو سکتے ہیں، مختلف حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے بھی اس بیان پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اگر جمہوری اقدار اور سیاسی اصولوں کی مطابقت سے دیکھا جائے تو برابری کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینا ہر سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے اور اس کی ان کو اجازت بھی ہونی چاہئیے۔

ویسے تو انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری اور نگرانی کا ادارہ الیکشن کمیشن ہے اور وہی کسی بھی سیاسی قائد، شخصیت یا جماعت کی اہلیت اور شرکت کے بارے میں حتمی فیصلے کا حق رکھتا ہے۔ اس اختیار کی روشنی میں وزیر اعظم کے اس بیان کی وضاحت وہ خود بہتر طریقے سے کر سکتا ہے مگر کچھ حالات و واقعات کی روشنی میں دیکھیں تو اگرعمران خان اور تحریک انصاف کے اس جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئے برابری کی بنیاد پر ان کی شرکت ان کا حق ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آیا ان کی سوچ و عمل یا جماعت کی کارکردگی ان کے جمہوری ہونے کی اہلیت کو بھی ثابت کرتی ہے یا نہیں؟

اگر 2018 کے انتخابات کو سیاسی انجینیئرنگ کا نتیجہ مان لیا جائے جس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں کیونکہ اس کے سہولت کاروں نے خود انکشافات کیے ہیں اور ان کے ادارے نے اپنے آپ کو نیوٹرل رہنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قومی جمہوری جرم کے شریک جرم عمران خان جو اس جرم کے سب سے بڑے بینی فیشری تھے، کو اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ وہ سیاست دان تھے۔

پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے میں ذاتی مفادات کی سوچ کا بہت بڑا کردار ہے اور اس میں سیاست دان بھی کسی سے پیچھے نہیں جنہوں نے ہر معرکے میں اپنے کاندھے پیش کر کے اس جرم کی راہ کو ہموار کیا ہے اور بعد میں وہ اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ہر دفعہ عوام ان کی چالاکیوں میں آ کر ان سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔

کیا وہ سمجھتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات جو موجودہ مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور معاشی تباہی کی بنیادی وجہ ہیں، ان کا سارا ملبہ دوسروں پر ڈال کر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپناتے ہوئے عوامی ہمدردیاں حاصل کر کے سرخرو ہو جائیں گے؟ کیا عمران خان اور ان جیسے کردار کے حامل افراد کو ان کے حمایتی اور حواری جمہوریت پر شب خون مارنے کے بعد ان کے کارناموں کو نظرانداز کر کے عوامی عدالت کے اندر وعدہ معاف گواہ بنا کر قومی ہیرو بنانا چاہتے ہیں؟ ایسا کرنا اتنا آسان اور سادہ نہیں۔

وعدہ معاف گواہ بننے کے بھی کوئی اصول ہوتے ہیں۔ وعدہ معاف کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہ ہو، کوئی ثبوت میسر نہ ہو مگر جب مجرم خود ہی اعتراف کر رہے ہوں تو کسی وعدہ معاف کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اور یہ اختیار بھی ریاست اور عدالت کے پاس ہوتا ہے کہ وہ کسی کی وعدہ معافی کی پیش کش کو مانتے ہیں یا نہیں۔ اب تو ان کے اپنے ساتھی ان کے خلاف وعدہ معاف بننے کے لئے بے چین ہیں۔ جرم کو چھپانے کے لئے اپنے شریک جرم ساتھوں کو بلیک میل کر کے اپنی جان چھڑوانے کی کوششیں اب کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔

اگر وہ اپنے محسنوں کوچھوڑ دینے اور ان کی بے رخیوں کا بدلہ ان کے ادارے سے لینا چاہیں تو اس کو کیسے جائز تسلیم کر لیا جائے؟ کیا جو کچھ 9 مئی کو ہوا ہے اس کی تحقیق نہیں ہونی چاہئیے؟ کیا اگر وہ اپنی گرفتاری پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے فوجی تنصیبات اور قومی املاک پر دھاوے کو جسٹی فائی کرنے کی کوشش کریں تو اسے ان کی سادگی اور معصومیت سمجھتے ہوئے جائز مان لیا جائے؟ کیا ان کے اس بیانیے کو کہ اگر ان کو اقتدار سے علیحدہ کیا جاتا ہے تو پارلیمان، عدلیہ سے لے کر الیکشن کمیشن تک سب مجرم ہیں، اور وفاقی حکومت کی سونپی ہوئی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فوجی اور رینجرز کے دستوں کو ان کی گرفتاری میں شمولیت پر اشتعال میں آ کر ہجوم کے دھاوے کو ان کا جمہوری حق سمجھتے ہوئے سب ٹھیک مان لیا جائے؟

اگر آج بھی وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے پر بضد ہیں اور وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے اداروں کو ہی سیاست میں کردار ادا کرنے پر مجبور کرتے ہوئے دکھائی دیں اور مدد کے لئے پکار رہے ہوں تو ان کے اس رویے کو جمہوری کیسے مان لیا جائے؟

اگر ان کے شریک جرم سہولت کاروں کو ان کے اداروں کا تحفظ میسر ہے تو یہ اداروں کی ساکھ کو بچانے کے لئے ہے۔ اداروں کو غیر یقینی کا شکار کر کے مستقبل کے خطرات کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کی حکمت عملی کے تحت ہو سکتا ہے اور ایک سیاست دان کا ادارہ پارلیمان ہوتا ہے جو جمہوریت کا اصل نگہبان ہے۔ سیاست دان کے ساتھ کھڑے ہونے والی اس کی اپنی سیاسی جماعت یا اصولی سیاست اور جمہوری بیانیے پر دوسری سیاسی جماعتیں اور عوام ہوتے ہیں اور اگر کسی کے بیانیے کا بوجھ اس کی اپنی جماعت کی قیادت بھی نہ اٹھا سکے اور سیاسی اور جمہوری حلقے اس کے انداز سیاست سے نالاں ہوں تو اس کو جمہوری کیسے مان لیا جائے؟

محض بیانیوں کے بدل لینے اور دوسروں کی ناکامیوں سے نالاں عوام کی تکلیفوں سے ان کی ہمدردیاں حاصل کر لینے کو سیاسی کامیابی نہیں سمجھا جا سکتا۔ سیاست خدمت کا نام ہے اور اس میں صرف دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کافی نہیں ہوتی۔ اس میں صرف اقتدار میں رہ کر خدمت ہی ممکن نہیں ہوتی بلکہ اپوزیشن میں رہ کر بھی اپنا مثبت کردار ادا کر کے خدمت کی جا سکتی ہے۔ اگر کوئی حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو اس کو اقتدار کا بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ عوام کی نمائندگی کا حق ان کے مینڈیٹ کی نسبت سے ہوتا ہے۔ اگر عوامی مینڈیٹ آپ کو اپوزیشن میں بٹھاتا ہے تو اسے اقتدار کی جنگ لڑنے پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔

آج ملک کی جو حالت ہے اس میں صرف ان کی اقتدار میں ہوتے ہوئے نااہلیوں کا حصہ ہی نہیں بلکہ ان کی اقتدار سے ہاتھ دھونے کے بعد سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے نامہ اعمال کا بھی کافی ہاتھ ہے۔

سیاست کے اصول اور جمہوری اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ریاست کی تقدیر سے کھیلنے کے بعد کسی کے جرائم پر پردہ ڈال دیا جائے۔ دائیوں سے پیٹ نہیں چھپائے جا سکتے۔ بیانیوں کے بدل لینے سے سادہ عوام کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے مگر ریاستی اداروں کو اپنی نا اہلیوں اور کارناموں سے لا علم نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر وہ ایک جمہوری سیاست دان ہونے کا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو پہلے اپنے جرائم پر پشیمان ہوتے ہوئے اداروں اور عدالتی نظام انصاف پر اعتماد کے ساتھ تمام تر تحقیقات اور قانونی کارروائیوں کا سامنا کر کے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا ہوگا۔ تب وہ ایک جمہوری سیاست دان کے طور پر اپنے جمہوری ہونے کے فائدے کے اہل ہو سکتے ہیں۔

اگر آج جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے قومی مجرموں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوئی دوسرا بھی اس غلط فہمی میں ہے کہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد ان کو کوئی جوابدہ نہیں ٹھہرائے گا تو یہ ان کی بھی بھول ہے۔ یہ خداداد ریاست کی حکومت عوامی خدمت کا شعبہ خالق حقیقی کی خلافت کے طور پر ایک ذمہ داری کا نام ہے اور جو اسے بے اصولی اور ناجائز ذرائع سے حاصل کر کے عزت و تکریم یا اجارہ داری کا ذریعہ سمجھتا ہے اس کو پھر قدرت کے اصولوں کا نشانہ بننے کے انجام سے بے خبر نہیں رہنا چاہئیے کیونکہ قدرت کے اصولوں کا فارمولہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں۔