اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا کی نسلی پروفائلنگ اور ہراساں کرنے کی شکایات دور کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیکرٹری داخلہ میکنرم بنائیں تاکہ بلوچ طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کو روکا جائے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے قائد اعظم یونیورسٹی کے لاپتہ طالب علم کی بازیابی اور بلوچ طالب علموں کو ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی طرف سے ایڈووکیٹ ایمان مزاری جبکہ وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل سید محمد طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔
ایمان مزاری نے بتایا کہ ایک بلوچ طالب علم ڈاکٹر دلدار بلوچ کو کراچی سے اٹھایا گیا جبکہ نمل یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو پنجاب یونیورسٹی سے بھی اٹھایا گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے حکومت بلوچ اسٹوڈنٹس کے حوالے سے معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ ایچ ای سی کو تمام یونیورسٹیز کو نوٹس جاری کرنا چاہیے تاکہ بلوچ طلبہ کو ہراساں نا کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر صدر مملکت کے ساتھ بلوچ طالب علموں کی دو میٹنگز ہوئی ہیں اور انہوں نے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ حقیقی ایشوز ہیں طلبا کی نسلی پروفالنگ کیوں ہو رہی ہے؟ پھر تو وزارت انسانی حقوق کو بند کردیں۔ یہ بچے ملک کا مستقل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا کابینہ کو معلوم نہیں ہوتا ملک میں کیا ہورہا ہے۔ کیا جو اس وقت کابینہ میں ہیں وہ کل ان کے پاس نہیں جا رہے تھے؟ کیا ان کو نہیں پتہ؟ جب بھی کوئی حکومت میں نہیں ہوتا اس کی باتیں کچھ اور ہوتی ہیں حکومت میں آکر سب بھول جاتے ہیں۔ جمہوری سوسائٹی میں یہ سیاسی لیڈرشپ کا کام ہے وہ اس کا حل نکالے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین کے مطابق اس سب کا کون ذمہ دار ہے؟ ایمان مزاری نے کہا چیف ایگزیکٹیو اور متعلقہ ادارے اس کے ذمہ دار ہیں۔
عدالت نے بلوچ طلبا کی نسلی پروفائلنگ اور گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہائے کمیشن ارکان کے نام تجویز کرنے کا کہا جس پر درخواست گزار نے چیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان حنا جیلانی، افراسیاب خٹک، سمیع الدین بلوچ اور ڈاکٹر عبدالحمید نیر کے نام تجویز کیے۔