آج بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام صوبے میں شہید صحافیوں کا دن منایا جارہا ہے۔
اکتوبر 2021 کو بلوچستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ضلع حب میں گاڑی میں نصب مقناطیسی بم کے ذریعے مارے جانے والے صحافی شاہد زہری کے بھائی زاہد زہری ابھی تک اس بات کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں کہ ان کے بھائی کو کس نے اور کیوں مارا؟ اُن کے مطابق واقعہ کی ذمہ داری کالعدم علیحدگی پسند تنظیم نے قبول کرتے ہوئے ریاستی اداروں سے روابط اور سنگین الزامات لگائے تھے جسے وہ مسترد کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی نے اُن کے بھائی کو کالعدم تنظیم کی آڑ میں ذاتی حیثیت میں نشانہ بنایا ہے جس کی تحقیقات کیلئے وہ عدالتی ٹرائل جاری کرنا چاہتے ہیں لیکن اب تک اُن کے مطابق کسی ادارے اور صحافی یونین نے اُن کے خاندان سے تعاون نہیں کیا۔
شاہد زہری کو حکومت بلوچستان کی جانب سے 23 مارچ 2023 کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ہے جو اُن کے والد نے گورنر ہاؤس میں منعقد تقریب میں گورنر بلوچستان عبدالولی کاکڑ سے وصول کیا ہے۔ زاہد زہری کہتے ہیں کہ میرے بھائی کو حکومت نے تمغہ امتیاز تو دے دیا لیکن انصاف نہیں دیا۔
بلوچستان میں مارے جانے والے بیش تر صحافیوں پر ریاستی اداروں یا پھر علیحدگی پسند تنظیموں سے روابط کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں لیکن آج تک کسی عدالتی ٹرائل میں یہ الزامات ثبوت کے ساتھ سامنے نہیں آ سکے جبکہ بلوچستان میں صحافیوں کی یونین کا مؤقف رہا ہے کہ اگر کسی ریاستی ادارے یا مسلح تنظیم کو کسی صحافی سے کوئی شکایت یا کسی سرگرمی پر شک ہے تو وہ صحافتی تنظیم سے رابطہ کرے، یونین متعلقہ صحافی کو تنبیہ کرتے ہوئے ایسے اقدام سے روکے گی۔ اگر وہ پھر بھی اُن معاملات سے باز نہ آئے تو یونین لا تعلقی کا اظہار کر دے گی لیکن اس طرح کسی کی جان لینا قابل قبول نہیں ہے اور یہ عمل قابل مذمت ہے۔
ضلع حب میں مین آر سی ڈی شاہراہ پر حب پولیس سٹیشن کے قریب چلتی گاڑی میں ہونے والے دھماکے میں صحافی شاہد زہری شدید زخمی ہوئے اور اسپتال پہنچنے کے دوران ہی دم توڑ گئے تھے۔ شاہد زہری کے بھائی زاہد زہری کے مطابق اُن کے بھائی پر یہ چوتھا حملہ تھا جس میں اُن کی جان چلی گئی۔ اس سے قبل بھی اُن پر 2 بار قاتلانہ حملہ اور ایک بار گاڑی پر مقناطیسی بم لگایا گیا تھا جو اُنہوں نے دیکھ لیا اور پولیس کو اطلاع کی جسے ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ زاہد زہری بتاتے ہیں کہ شاہد زہری کی ایک بیوہ اور تین بیٹیاں ہیں۔ ہم نے کئی بار اُنہیں کہا کہ وہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہو جائیں لیکن وہ کہتے تھے میں نے جب کچھ کیا نہیں ہے تو کوئی مجھے کیوں مارے گا؟ یہ کسی کا ذاتی عمل ہو سکتا ہے، اس لیے اُنہیں لگتا ہے کہ کالعدم تنظیم کی آڑ میں اُن کے بھائی کو کسی نے ذاتی مقاصد کیلئے نشانہ بنایا ہے۔
زاہد زہری کہتے ہیں کہ واقعہ کے بعد ہم اس حال میں نہیں تھے کہ پولیس سٹیشن جاتے، اس لیے اُس وقت کے علاقائی ایس ایچ او کی مدعیت میں تھانہ سی ٹی ڈی میں مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جس کے بعد مختلف اداروں اور سی ٹی ڈی کے لوگ تفتیش کیلئے آتے رہے لیکن تفتیش کی پیش رفت سے آج تک ہمیں نہیں بتایا گیا۔ سی ٹی ڈی کا ایک بیان آیا تھا جس میں میرے بھائی کے قتل میں ملوث کالعدم تنظیم کے 2 افراد کو گرفتار کرنے کا ذکر تھا جس کے بعد میں تھانے گیا اور ایس ایچ او سے درخواست کی کہ وہ بندے ہمیں دکھائے جائیں لیکن ہمیں نہیں دکھائے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب یہ واقعہ ہوا تو ٹھیک 22 دن بعد آواران کی ایک سیاسی شخصیت کو بھی اسی طرح مقناطیسی بم لگا کر نشانہ بنایا گیا تھا جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے بھائی کے کیس کو دبانے کی سازش ہو سکتا ہے۔ حکومتی مالی معاونت سے متعلق سوال پر اُنہوں نے کہا کہ اب تک بھائی کے قتل کے بعد بیوہ بھابھی اور بچوں کیلئے حکومت کی طرف سے کوئی مالی معاونت نہیں کی گئی۔
زاہد زہری کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کے قتل کے محرکات جاننے کیلئے مختلف اداروں اور پولیس سے رابطہ کرتے رہے لیکن خود سے کسی نے اُن سے رابطہ نہیں کیا جبکہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اُس وقت کے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید سے کوئٹہ جا کر ملے اور اُن سے کہا کہ وہ اُن کے بھائی کے قتل کا مقدمہ چلانے کیلئے آواز اُٹھائیں اور ہمارے ساتھ تعاون کریں جس پر دونوں صدور نے تعاون کی یقین دہانی کروائی اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید نے کہا کہ یونین کے اپنے وکلا ہیں جن سے وہ اس مسئلے پر بات کریں گے لیکن اُس کے بعد یونین کے کسی عہدیدار یا رکن نے آج تک مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ اُن کے بھائی 2008 سے صحافت کر رہے تھے اور پریس کلب کے مختلف عہدوں پر رہ چکے تھے لیکن حب لسبیلہ پریس کلب میں 25 سے 30 صحافی ہیں مگر اُنہوں نے کالی پٹی تک باندھ کر احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔ معلوم نہیں اُنہیں کسی کا ڈر ہے یا پھر کوئی اور وجہ ہے کہ وہ بھی ہمارے لیے آواز نہیں اُٹھاتے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر شہزادہ ذوالفقار نے زاہد زہری کے شکوہ پر جواب دیتے ہوئے مؤقف دیا کہ جب شاہد زہری کا واقعہ ہوا تو وہ اُن کی فاتحہ میں گئے اور اُن کے والد اور بھائیوں سے ملاقات کی جہاں اُن کے اہلخانہ نے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے آواز اُٹھانے کا کہا۔ اُس کے بعد شاہد زہری بھی کوئٹہ آئے اور مجھ سے ملاقات کی۔ تب بھی یونین کی سطح پر اُنہیں ہر معاونت کا یقین دلایا۔ سابق صدر پی ایف یو جے شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ ہم نے کبھی کسی ایک صحافی کا نام لے کر مطالبہ نہیں کیا بلکہ تمام صحافیوں کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بلوچستان میں اب تک 43 کے قریب صحافی مارے گئے ہیں جن میں 10 سے 12 صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران بم دھماکوں یا کراس فائرنگ کا نشانہ بن کر شہید ہوئے جبکہ کچھ نامعلوم افراد کے ہاتھوں مارے گئے جبکہ کچھ صحافی ذاتی مسائل کے دوران نشانہ بنے ہیں لیکن ہم تمام کیلئے یکساں انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شاہد زہری کے قتل کی ذمہ داری کالعدم تنظیم نے قبول کی تھی اور اُن پر الزامات بھی لگائے تھے۔ اُن کے کیس میں تو ریاستی ادارے خود بھی کافی متحرک ہیں کہ واقعہ میں ملوث ملزمان تک پہنچا جائے۔ کوئٹہ میں صحافی ارشد مستوئی کو دفتر میں شہید کیا گیا جس کی ذمہ داری بھی کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ ہم ہرسال 28 اگست کو شہدائے صحافت کا دن مناتے ہیں جس میں پہلا مطالبہ شہید صحافیوں کو انصاف کی فراہمی کا ہوتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ آج سے 3 یا 4 سال قبل بلوچستان ہائی کورٹ نے ہمارے مطالبے پر ٹربیونل بنایا لیکن شہید صحافیوں کے لواحقین پیش نہیں ہوئے اور کہا کہ ہم کوئٹہ نہیں آ سکتے جس پر بلوچستان ہائی کورٹ نے ہر ضلع کے سیشن جج کو پابند کیا کہ وہ لواحقین کو سنے لیکن شہدا کے لواحقین وہاں بھی پیش نہیں ہوئے کہ ہمیں خطرہ ہے اوردھمکیاں مل رہی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ شہید ہونے والے صحافیوں میں سے صرف 7 سے 8 صحافیوں کو سرکاری مالی امداد کی رقم ملی ہے، باقی تاحال اس سے محروم ہیں۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید نے بتایا کہ زاہد زہری کوئٹہ ملاقات کیلئے آئے تھے۔ شاید اُنہیں غلط فہمی ہوئی ہے، میں نے وکلا سے مشاورت کی بات نہیں کی کیونکہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کا کوئی وکلا کا پینل نہیں ہے کیونکہ وکلا کی فیس کیلئے فنڈز درکار ہوتے ہیں اور یونین کے اتنے وسائل نہیں۔ تاہم ضرورت کے تحت ذاتی تعلقات کی بنیاد پر وکلا تنظیموں کے ذریعے وکلا کی خدمات لے لیتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ شاہد زہری کے قتل کی ذمہ داری کالعدم تنظیم نے قبول کی تھی اور مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج ہوا ہے۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس باقاعدہ طور پر کسی ایف آئی آر میں کالعدم تنظیم کو تو نامزد نہیں کر سکتی کیونکہ اس طرح کے واقعات میں سرکار کی مدعیت میں مقدمات درج ہوتے ہیں البتہ ہمارا ہمیشہ سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن بنایا جائے جو تمام صحافیوں کے قتل سے متعلق شفاف تحقیقات کرے اور تمام صحافیوں کے قتل کی وجوہات سامنے لائے۔
شہدا کی مالی معاونت سے متعلق کیے گئے سوال سے متعلق جواب دیتے ہوئے صدر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس عرفان سعید نے بتایا کہ کوئٹہ پریس کلب نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک شہدا ویلفیئر ٹرسٹ بنایا ہے جس کے تحت رمضان اور عید کے موقع پر صرف کوئٹہ کے شہید صحافیوں کی فیملی کی تھوڑی بہت عیدی کی صورت میں مدد کی جاتی ہے جبکہ ایک جرنلسٹس ویلفیئر فنڈ سرکار نے بنایا ہے جس کے تحت صحافیوں کی بیماری اور پہلے بچے کی شادی اور دیگر ضرورت کے موقع پر مدد کی جاتی ہے۔ جرنلسٹس ویلفیئر فنڈ کا چیئرمین ڈائریکٹر جنرل محکمہ تعلقات عامہ ہوتا ہے اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اور کوئٹہ پریس کلب کے صدر اس کے ممبر ہوتے ہیں۔ جرنلسٹس ویلفیئر فنڈ کے ذریعے شہید شاہد زہری کی فیملی کو 2 لاکھ کی مالی معاونت کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سرکاری مالی امداد کیلئے محکمہ داخلہ میں درخواست دی جاتی ہے جس کے بعد مختلف جگہ سے تصدیق کرانے کے بعد محکمہ خزانہ سے رقم ریلیز کی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ زاہد زہری نے مالی معاونت کیلئے اگر درخواست نہیں دی تو وہ اپنا کیس محکمہ داخلہ میں دیں، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اُن کو ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔
لسبیلہ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عزیز لسی کہتے ہیں کہ شاہد زہری ہمارے ساتھ کام کرتے رہے ہیں، ہمارے دوست تھے، واقعہ پر شدید دکھ ہے لیکن زاہد زہری کی اس بات میں صداقت نہیں کہ ہم نے احتجاج نہیں کیا۔ ہم نے ہر سطح پر احتجاج کیا ہے کہ واقعہ کے جو بھی مُحرکات ہیں وہ سامنے آنے چاہئیں۔
صحافی شاہد زہری کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے بذریعہ ای میل رابطہ کرنے پر ترجمان جئیند بلوچ نے کہا کہ ہم یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہماری تنظیم بی ایل اے نے شاہد زہری کو مکمل تحقیق کے بعد نشانہ بنایا۔ شاہد زہری کے قتل میں کوئی ذاتی رنجش و عناد شامل نہیں جس کی تفصیل 10 اکتوبر 2021 کی پریس ریلیز میں تصاویر کے ساتھ واضح کر چکے ہیں۔ صحافیوں سے متعلق تنظیم کی پالیسی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے تو ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ لبریشن آرمی صحافت کو ایک مقدس شعبہ مانتی ہے، بی ایل اے صحافی برادری کے اہم کردار کی معترف ہے۔ ہم آزادی صحافت پر نا صرف یقین رکھتے ہیں بلکہ اپنے قول و فعل سے اس کی وکالت بھی کرتے ہیں لیکن صحافت کے اندر کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو صحافت کے لباس میں کسی اور مقصد پر عمل پیرا ہیں۔ تنظیم کا ایک انٹیلی جنس ونگ ہے جو تمام معلومات کے بعد معاملہ مرکز کو بھیجتا ہے جس کے بعد اقدام اُٹھایا جاتا ہے۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے اس مطالبے کہ اگر کسی صحافی پر شک ہو یا شکایت ہو تو صحافتی تنظیم کو آگاہ کیا جائے، سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کالعدم تنظیم کے ترجمان نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی کو بلوچستان یونین آف جرنلسٹس سے رسمی طور پر ایسا کوئی مطالبہ موصول نہیں ہوا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہو کہ ہم مشکوک صحافیوں کی فہرست انہیں مہیا کریں۔ اگر ہمیں رسمی طور پر ایسا مطالبہ موصول ہوا تو پھر اس پر سنجیدگی سے غور کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان بار کونسل کے صدر راحب بلیدی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ کسی بھی واقعہ کی جب ایف آئی آر درج کر لی جاتی ہے تو پولیس کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ 14 دن کے اندر عدالت میں چالان جمع کرائے اور مقدمے میں نامزد ملزم کی گرفتاری عمل میں لائے۔ اگر وہ مفرور ہو تو سیکشن 87 اور 88 کے تحت ملزم کا شناختی کارڈ بلاک اور جائیداد ضبط کرنی چاہئیے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پولیس کا تفتیشی نظام انتہائی ناقص ہے۔ اگر پولیس چاہے تو دوسرے ملک سے بھی ملزم کی گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ راحب بلیدی ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ نامعلوم افراد کی شناخت اور گرفتاری بھی پولیس کے تفتیشی کی ذمہ داری ہے کہ وہ جائے وقوعہ پر پہنچ کرشواہد اکٹھے کرے اور متاثرہ فرد یا خاندان سے رابطہ کرنے کے ساتھ ساتھ گواہان کے بیانات قلمبند کرے لیکن پولیس اس طرح جامع تفتیش نہیں کرتی جس کی وجہ سے گرفتار ملزم بھی عدالت سے بری ہو جاتے ہیں۔
بلوچستان کے شورش زدہ علاقے مکران ڈویژن میں بھی صحافت کرنا انتہائی مشکل سمجھا جاتا ہے جہاں اب تک بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے ریکارڈ کے مطابق 6 صحافی مارے جا چکے ہیں۔ مکران ڈویژن کے ضلع تربت میں ضلعی پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ماجد صمد نے صحافیوں کے مقدمات پر پیش رفت سے متعلق سوال پر بتایا کہ 2010 میں گوادر میں صحافی لالا حمید کو، جنوری 2011 میں الیاس نذر کو تربت میں، فروری 2011 میں دوست رند کو تمپ ضلع کیچ میں، مئی 2012 میں رازق گل اور 23 اکتوبر 2012 کوخالد موسیٰ کو نامعلوم افراد نے تربت میں قتل کردیا تھا۔
ماجد صمد کے مطابق مارے جانے والے صحافیوں کے مقدمات نامعلوم افراد کے خلاف درج تو ہو گئے لیکن پولیس کے عدم تعاون کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی جبکہ اُس وقت کے حالات و واقعات اور ریاستی اداروں اور کالعدم تنظیموں کے ڈر کی وجہ سے شہید صحافیوں کے لواحقین نے بھی کارروائی کیلئے دباؤ نہیں ڈالا کیونکہ وہ انصاف ملنے سے مایوس ہو گئے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ پولیس کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تربت میں پی ٹی وی کے پروگرام کی میزبان اور ادبی رسالے کی ایڈیٹر شاہینہ کو ڈھائی سال قبل مبینہ طور پر اُن کے شوہر نے قتل کیا اور فرار ہو گیا جس کو پکڑنے میں پولیس اب تک ناکام ہے۔ جب پولیس ایک گھریلو مسئلے پر صحافی کے قاتل کو نہیں پکڑ سکتی تو پھر دیگر صحافیوں کے قاتلوں کا کیا سراغ لگائے گی؟
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے ترجمان کے مطابق دہشت گردی کی دفعات کے مقدمات کی تفتیش سی ٹی ڈی کرتی ہے، ایک مقدمے میں نامزد ملزم یا گروپ بیش تر مقدمات میں مطلوب ہوتے ہیں۔ سی ٹی ڈی کی تفتیشی ٹیم ماضی کے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے مقدمات میں پیش رفت کو آگے بڑھاتی ہے۔ دہشت گردی میں ملوث گرفتار ملزمان کو براہ راست کسی سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی تاہم جس مقدمے میں ملوث ملزمان گرفتار ہو جاتے ہیں تو سی ٹی ڈی باقاعدہ طور پر تفصیل کے ساتھ پریس ریلیز جاری کر دیتا ہے جبکہ کوئی اہم نوعیت کی گرفتاری یا پیش رفت ہو تو سی ٹی ڈی حکام پریس کانفرنس کرتے ہیں۔
بلوچستان میں مارے جانے والے بیش تر صحافی جانبداری یا پھر تربیت نہ ہونے کی وجہ سے خبر کی حساسیت کو سمجھے بنا خبر بنانے کی وجہ سے خود خبر بن جاتے ہیں۔ اگر صحافی خبر کو خبر کی حد تک اور غیر جانبداری سے جنگ زدہ علاقوں میں کام کریں تو کسی حد تک جان کا تحفظ ممکن بنا سکتے ہیں۔