صحافی اور اینکر کامران شاہد نے اپنے پروگرام میں مقتول صحافی ارشد شریف کے جسم پر تشدد کے واضع نشانات کی تصاویر شیئر کیں جس کے بعد تحقیقات نے ایک نیا رخ موڑ لیا۔ جبکہ ارشد شریف کی پاکستان میں ہونے والے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تاحال نہ منظر عام پر لائی گئی ہے نہ ہی ان کے اہلخانہ کو دی گئی ہے جس کے بعد اس تمام معاملے پر بہت سے سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔
لندن میں موجود جیو نیوز کے نمائندے مرتضیٰ علی شاہ نے نیادور کے اینکر وقاص علی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے ارشد شریف قتل کیس میں تشدد اور معاملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہونے کے امکان کا اظہار کردیا۔ مرتضیٰ علی وہ پہلے صحافی تھے جنہوں نے کینیا کے شہر نیروبی جا کر اس تمام واقعہ کی تحقیقات کیں اور دیگر شواہد بھی حاصل کئے۔
اینکر وقاص علی نے سوال کیا کہ جیسے جیسے آپ نے معاملے کی تحقیقات شروع کیں اور ایک کے بعد دوسرا پہلو سامنے آتا چلا گیا تو بطور صحافی آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا۔ کیا یہ معاملہ اتنا ہی سادہ تھا جتنا کے شروعات میں دکھایا گیا۔
مرتضیٰ علی شاہ نے معاملے کے سادہ ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ پہلے کہا گیا کہ روڈ حادثے میں موت ہوئی پھر کہا کہ شناخت کی غلط فہمی کی وجہ سے قتل ہوا یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ جو میں نے وہاں دیکھا اور پاکستانی تحقیقاتی ٹیم اور ڈی جی ایف آئی نے بھی اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یہ ایک منظم قتل (ٹارگٹ کلنگ) تھی۔ انہوں نے بتایا کہ آج ڈی جی ایف آئی اے کا انٹرویو کیا جس میں انہوں نے کہا کہ اس ٹارگٹ کلنگ میں کینیا کی پولیس ملوث ہے۔
صحافی مرتضیٰ علی نے مزید کہا کہ جو ابتدائی بیان تھا کہ یہ روڈ حادثہ ہے وہ صرف ایک 'کووراپ' تھا تاکہ حقیقی معاملے کو چھپایا جائے۔ کینیا پولیس نکی جانب سےخرم احمد کا نام لے کر کہا گیا کہ اس کے مطابق یہ ایک حادثہ تھا۔ کینیا پولیس تاحال اس موقف پر قائم بھی ہیں لیکن انہوں نے اس معاملے میں کچھ یو ٹرن بھی لئے ہیں۔ یہ سراسر ایک غلط موقف تھا اور اس میں اب کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی ٹارگٹ کلنگ تھی۔
شناخت میں غلط فہمی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مرتضیٰ علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ کیس شناخت میں غلط فہمی کا قطعا نہیں تھا ۔ اگر ایسا ہو تا کہ پولیس مسٹر اے کو دیکھ رہی تھی اور مسٹر بی کے اپر انہوں نے گولی چلا دی۔ پولیس کا کہنا یہ ہے کہ اس دن وہ ایک گاڑی تلاش کر رہے تھے۔ گاڑی کے مالک ڈگلس کمائو نے مجھے انٹرویو دیا اس نے بتایا کہ جس رات 10 بجے ارشد شریف کا قتل ہوا میرے غائب شدہ گاڑی کی تلاش ہو رہی تھی جو میرا بیٹا بغیر بتائے لے گیا تھا لیکن میں نے ساڑھے نو بجے پولیس کو مطلع کر دیا تھا کہ میرا بیٹا اور گاڑی دونوں مل چکے ہیں تو گاڑی کا معاملہ ختم ہو گیا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ چوری شدہ گاڑی کے مل جانے کے آدھے گھنٹے بعد کینیا پولیس یہ کارروائی کی اور ارشد شریف کو قتل کیا گیا۔حالانکہ وائرلیس کے ذریعے گاڑی ملنے کی اطلاع دے دی گئی تھی۔
خرم احمد سے ملنے اور واقعہ کے حوالے سے سوال پر مرتضیٰ علی کا کہنا تھا کہ انہوں نے خرم احمد اور وقار احمد سے بات کی ان کی رہائش گاہ پر بھی گئے تاہم دونوں بھائیوں کی جانب سے کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا اور ان کے وکلاء ہی اس معاملے پر بات کررہے ہیں۔ انکے وکیل کے ساتھ رابطہ ہے جبکہ ان کا انٹرویو بھی کیا ہے جو جلد منظرعام پر آئے گا۔
ارشد شریف کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کے ابھی تک نہ ملنے کے حوالے سے صحافی کا کہنا تھا کہ پہلے تحقیقات کینیا پولیس کررہی تھی لیکن اب تحقیقات انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اتھارٹی (آئی پی او اے) کررہی ہے جو پلیس کا احتساب کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن جیسے وہ اس معاملات کی تحقیقات کر رہے ہیں کس طرح یہ معاملات چل رہے ہیں انسانی ذہن کے لئے سمجھنا آسان نہیں۔ پہلے پولیس نے کہا تھا کہ ارشد شریف کے لیپ ٹاپ، آئی پیڈ سمیت تمام ڈیوائسز ان کے پاس ہیں تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس یہ چیزیں موجود نہیں۔ اس لئے ابھی تک بہت متنازع بیانات سامنے آرہے ہیں۔
اینکر وقاص علی نے سوال کیا کی کینیائی پولیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک طرح سے وہاں کی اسٹیبلشمنٹ ہے اور ان سے کوئی بھی حقائق نکلوانا آسان نہیں ہے آپ کو بھی وہاں ایسا ہی محسوس ہوا؟ جس کے جواب میں مرتضیٰ نے کہا کہ آن ریکارڈ تو آپ کینیائی پولیس سے کوئی معلومات نہیں نکلوا سکتے اور معلومت کے حصول کے لئے روابط کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ تصور کیا جائے کہ جیسے پاکستانی پولیس معاملات پر پریس ریلیز جاری کرتی ہے اسی طرح کینیائی پولیس بھی کرے گی تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ تاہم روابط کے ذریعے تھوڑی محنت کے بعد معلومات نکلوائی جاسکتی ہیں۔
کامران شاہد کی جانب سے پروگرام میں ارشد شریف پر تشدد کی تصدیق کے حوالے سے کئے گئے سوال پر صحافی مرتضیٰ علی شاہ کا کہنا تھا کہ ان سے کینیائی صحافیوں نے پوچھا تھا کہ ارشد شریف پر تشدد کی آپ کے پاس تفصیلات ہیں لیکن میرے پاس تفصیلات نہیں تھیں ۔ چونکہ کینیامیں ہونے والے پوسٹ مارٹم کی تفصیلات پہلے ہم (جیو) نے دیں تھیں اسی لئے مجھ سے یہ پوچھا گیا تھا ۔ پھر انہی صحافیوں نے تذکرہ کیا کہ ذرائع کے مطابق اس کیس میں تشدد کا عنصر بھی موجود ہے۔ چونکہ مجھے علم نہیں تھا تو میں تصدیق بھی نہیں کر سکا تھا۔ اور کامران شاہد سے پہلے اے آر وائے کے صحافی حسن ایوب بھی بتا چکے ہیں کہ تشدد کے نشانات ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ذرائع کے مطابق جو پاکستان میں پوسٹ مارٹم ہوا تھااس کی رپورٹ میں بھی تشدد کا ذکر ہے۔
پوسٹمارٹم رپورٹ کے تاحال منظر عام پر نہ آنے اور اہلخانہ کو نہ ملنے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے صحافی کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے اہلخانہ کا قانونی اور آئینی حق ہے کہ انہیں یہ رپورٹ ملے۔ جہاں تک رپورٹ ملنے کا سوال ہے میرے مطابق یا تو رپورٹ ان کو مل گئی ہے یا پھر جلد ملنے والی ہے۔
اینکر نے ایک اور سوال کیا کہ اگر تشدد کے نشانات ہیں اور انکی تدفین سے قبل انہیں غسل دیا گیا ہے تو کسی نے اس کو رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ اس کے جواب میں مرتضیٰ علی نے کہا کہ یہ بے حد ضروری ہے کہ اس قتل میں ملوث تمام ملزمان کو سامنے لایا جائے۔ ارشد شریف کے اہلخانہ کو، تمام صحافی برادری کو اور پورے پاکستان کو انصاف چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جو معاملات پاکستان میں انجام پا رہے ان کے حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ابھی میری تحقیقات کا دائرہ کار صرف کینیا نیروبی کی حد تک ہے۔
صحافی نے قتل کے پاکستان میں لنک ہونے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قتل کا کوئی ماسٹر مائنڈ تو ہے نا۔کسی نا کسی نے اس کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس کے عین مطابق کارروائی عمل میں لائی گئی۔ وہ شخص پکڑا جائے گا یا نہیں اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ ملکی حالات آپ کے سامنے ہیں تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قتل ایک منظم منصوبے کے تحت کیا گیا اور اس میں متعدد کردار شامل ہیں۔ شاید وقت کے ساتھ اس بات کا خلاصہ ہو سکے کہ وہ لوگ کون تھے۔