ضرب عضب کے بعد بھی قبائلی اضلاع میں 83 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے

سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور قبائلی اضلاع کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے دعوؤں کے باوجود یہاں ٹارگٹ کلنگ تھم نہ سکی. انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق  آپریشن ضرب عضب کے بعد سے قبائلی اضلاع میں  83 لوگوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

خبر میں لا اینڈ آرڈر ڈیپارٹمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ  18-2017 میں 12 جبکہ 2019 میں 71 لوگ مارے گئے۔ رواں سال ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والوں میں 51 کا تعلق شمالی وزیرستان سے اور 20 کا تعلق دوسرے اضلاع سے تھا۔

ٹارگٹ کلنگ میں دوسرے نمبر پر جنوبی وزیرستان ہے، جہاں 11 لوگوں کو گولی مار کر قتل کیا گیا جبکہ تیسرے نمبر پر باجوڑ میں آٹھ لوگ قتل ہوئے۔

اس طرح ضلع خیبر میں چھ، کُرم میں پانچ اور اورکزئی میں دو افراد کو ٹارگٹ کرکے ہلاک کیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا اور جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، وہ زیادہ تر نوجوان تھے۔

 انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق مقامی لوگ نالاں ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد سے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے دعوے کیے گئے تھے لیکن اب بھی نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

میران شاہ کے رہائشی یوسف خان کا کہنا ہے کہ ’حکومت ٹارگٹ کلنگ روکنے میں ناکام ہوچکی ہے، دوسری جانب عوام بھی اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتے کیونکہ ضرب عضب میں عام شہریوں سے اسلحہ لے لیا گیا تھا، جس کے بعد سے لوگ غیر مسلح ہو چکے ہیں۔‘ انہوں نے الزام لگایا کہ افسران کو صرف پیسے کمانے کی فکر ہے، بے گناہ شہریوں کے قتل کی کسی کو فکر نہیں۔

میران شاہ کے ایک سماجی کارکن نے دعویٰ کیا کہ آپریشن ضرب عضب کے دوران دہشت گردوں کو محفوظ راستہ دے کر افغانستان منتقل کر دیا گیا تھا، لیکن اب وہ واپس آ گئے ہیں، جس کی وجہ سے علاقے میں ایک بار پھر امن و امان کی صورت حال خراب ہے۔