قبائلی اضلاع کے انتخابات، ایف سی آر سے آئین پاکستان تک

قبائلی اضلاع کے انتخابات، ایف سی آر سے آئین پاکستان تک
تحریر: (عبدالروف یوسفزئی) انیسویں صدی کے آخری عشرہ میں ہنری ڈیورنڈ اور افغانستان کے امیرعبدالرحمان کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں تقریبا 2200 کلومیٹر طویل طورخم، پاک افغان یا ڈیورنڈ بارڈر کی حدود متعین ہو جاتی ہے۔ جس سے پشتون افغان کو دو ملکوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، بعد میں یہ خطہ پاکستان کے آخری مغربی گاؤں سے لے کر انڈس دریا تک بفرزون بنا کر عالمی طاقتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی گریٹ گیم شروع کر دی، جو آج بھی جاری ہے۔ برطانیہ راج نے 1900 تک پشتون علاقوں میں 60 کے قریب ملٹری آپریشنز کئے تھے اور 1897 میں بڑی بغاوت میں بہت زیادہ مالی و جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔

پاکستانی پشتون بلٹ وجود میں آجاتا ہے، اس ریجن کے متعلق برٹش راج والی پالیسیاں ہی بعد میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جاری رکھیں کیوںکہ یہی راستے سویت فوج کے خلاف اس وقت کے مجاہدین نے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کئے تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان جنگجووں کو تمام دنیا کی سپورٹ حاصل تھی، 1901 میں فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کا کالا قانون نافذ کیا۔


اگرچہ اس قانون کے متعلق کئی شقیں پشتون جرگہ سے لی گئی تھیں، جس کی وجہ سے جرگہ کی غیرجانبدارانہ اپروچ پر بھی سوالات اٹھائے گئے کیوںکہ حکومتی جرگہ میں مقامی ملکان شامل تھے ان عمائدین کی معیشت حکومتی وفاداری سے وابستہ تھی۔ انہی ملکان نے ایف سی آر کے حق میں سابقہ فاٹا اور بعض اوقات پشاور پریس کلب کے سامنے مظاہرے بھی کئے۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد سات دہائی تک قبائلی علاقہ جات کے پشتون انگریز کے قانون کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔ شرم کی بات یہ ہے کہ ان پشتونوں کو پاکستانی آئین کے اندرلانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی اور ہاں ایک دفعہ عوامی نیشنل پارٹی نے بیگم نسیم ولی خان کی سربراہی میں انضمام کا فارمولا پیش کیا تھا جس کے خلاف طاقتور اشرافیہ نے مقامی ملکان کو کھڑا کیا تھا۔

2018 میں پچیسویں آئینی ترمیم کے بعد بالاخر فاٹا کے ساتھ ایجنسیوں سمیت چھ فرنٹئیر ریجنز بھی خیبر پختونخوا میں ضم ہوگئے۔ اس میں کوئی دوسری آراء نہیں ہے کہ یہ ایک تاریخی کام سرانجام دیا گیا ہے، مگر اہم ترین سوال تو یہی بنتا ہے کہ اگر سامراجی قوتوں نے فاٹا اور کے پی کو اپنی فارورڈ اور بیک ورڈ پالیسیز کے لئے بفرزون قرار دیا تھا جہاں پر صرف جنگ اور جنگ کی انڈسٹری قائم تھی جس میں صرف ہندوستان اور افغانستان کے لوگوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تھا۔


نئی نسل کے ذہنوں میں یہی سوال بار بار اٹھے گا کہ پاکستانی ریاست (دھرتی ماں) کے کرتا دھرتا نے ہمیں کیوں غیر کی جنگوں کا ایندھن بنائے رکھا اور جن لوگوں نے بھی پشتون بلٹ میں جنگی اقتصاد کو پروان چڑھایا ان لوگوں اور اداروں کے نام مستقبل کے تحقیق کار ببانگ دہل بیان کریں گے۔ اگرچہ اس وقت میڈیا میں مقدس گائے کوحقیقت سنانے کا وقت نہیں آیا ہے، اگرچہ پشتون بلٹ سے اٹھتی ہوئی جوانوں کی مزاحمتی تحریک پشتون تخفظ موومنٹ نے آنے والی نسل کا قرض اتار دیا ہے اور کھل کر طاقتور اداروں اور افراد کے نام لئے ہیں باقی اس میدان میں کھیلنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔

بات ہورہی تھی فاٹا مرجر اور 20 جولائی کو پہلی بار صوبائی الیکشنز کی، جس میں مقامی ووٹرز پہلی بار اپنی پسند کے سیاسی امیدواروں کو پختونخوا اسمبلی کا ممبر بنائیں گے۔ علاقے کے لئے قانون سازی ان کے اپنے لوگ ہی کریں گے۔ اس الیکشنز کے متعلق اگرچہ سیاسی جماعتوں کے بہت سے تخفظات ہیں مگر اکثریتی آبادی اس ارتقائی عمل کو سپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستانی پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور آزاد امیدوار ( پی ٹی ایم کے حامی) فورسز کی پولنگ اسٹیشنز کے اندر تعیناتی کے خلاف ہیں اور حتی کہ بلاول بھٹو نے پانچ جولائی کو پشاور پریس کلب میں یہ بھی کہا تھا کہ عمران خان قابل احترام ادارہ کو خوامخواہ بدنام کرنا چاہتے ہیں۔

نارتھ وزیرستان سے پی ٹی ایم کے حامی امیدوار جمال داوڑ جو کہ علاقہ میں سوشل ورکر کی حیثیت سے کافی مقبول بھی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ چند روز پہلے تک علاقے میں دفعہ 144 تھی، جس کی وجہ سے ہم درست طریقے سے کیمپین نہیں کرسکے۔ انھوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کو چھوٹ حاصل تھی اور وہ کارنر میٹنگز کرتا تھا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کو اب معلوم ہو چکا ہے کہ کون اس دھرتی کا بیٹا ہے اور ووٹ کا اصل حقدار ہے۔

ان الیکشنز میں دو خواتین بھی حصہ لے رہی ہیں، ایک جماعت اسلامی کی سیٹ پر کرم ایجنسی سے جبکہ دوسری ناہید آفریدی خیبر ضلع سے عوامی نیشنل پارٹی کی ٹکٹ پر بھرپور مہم چلا رہی ہے۔ ناہید آفریدی صوبائی حلقہ 106 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ تاریخی خیبرپاس کے قریب شاہ کس میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دنیا کی کوئی بھی قوم قانون سازی میں آدھی آبادی کو اگنور نہیں کرتی اور میں بھی الیکشن اس بنیاد پر لڑ رہی ہوں کہ خواتین کی آواز بن جاؤں اور دنیا کو بھی پیغام ملے کہ ہم پشتون روشن خیال اور گھٹن کے ماحول کو دفن کرنے نکلے ہیں۔ ناہید آفریدی نے فلسفہ میں پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔

نئے ضم شدہ اضلاع کے کل 16 سیٹس کے لئے تقریبا 60 امیدوار میدان میں ہیں۔ مقامی صحافی عبدالقیوم آفریدی نے 20 جولائی کے دن کو قبائل کی تاریخ میں اہم ترین دن قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سات دہائیاں اپنے آپ کو محب وطن ثابت کرنے والوں کو آخر کار آئینی دائرہ کے اندر آنے کی اجازت مل ہی گئی۔

قیوم آفریدی نے کہا کہ کئی سو سال سے پشتون بلٹ جنگجوؤں کی پیدوار کے لیے مشہور ہے مگر اب ہم امید کرتے ہیں اس خطے کو اقتصادی فوائد کے لئے نئے سرے سے جائزہ لیا جائے گا اور ساتھ قبائلی اضلاع کے لوگوں کو قانون سازی کی اجازت بھی مل گئی۔

مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔